میلبرن: دل کی بائی پاس سرجری کے لیے عموماً ٹانگ کی شریان نکالی جاتی ہے لیکن اب ماہرین کہتے ہیں کہ بازو کی شریان بائی پاس کے لیے اس سے مؤثر ثابت ہوسکتی ہے۔
یہ اہم تحقیق یونیورسٹی آف میلبرن کے سائنسدانوں نے کی ہے جس کی تفصیلات امریکن کالج آف کارڈیالوجی میں شائع ہوئی ہے۔
اس سروے میں ماہرین نے 86 ایسے مریضوں کا جائزہ لیا جن کے بازو کے نچلے حصے کی موٹی ہڈی کی شریان (ریڈیئل آرٹری) کو کسی وجہ سے نکال دیا گیا تھا۔ یہ آپریشن 12 سے 22 سال کے درمیان کئے گئے تھے اور اس کے بعد بھی ہاتھوں میں خون کا بہاؤ معمول کے مطابق تھا۔ ورزش اور کام کرتے ہوئے یا آرام کے دوران بھی ہاتھوں کے خون کا بہاؤ کم نہیں دیکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نچلے بازو کی پتلی والی ہڈی اوولنا نے خون کے بہاؤ کا بوجھ سنبھال لیا تھا اور ایک شریان کا ازالہ کرلیا تھا۔
اس وقت دل کی بائی پاس سرجری کے 95 فیصد معاملات میں سرجن حضرات ٹانگ کی شریان استعمال کرتے ہیں اور کبھی کبھار اس کے ساتھ سینے کی دیوار (چیسٹ وال) شریانیں بھی لگاتے ہیں۔ تاہم یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دل کے بائی پاس میں استعمال ہونے والی یہ شریانیں اوسطاً دس برس میں مکمل یا جزوی طور پر بند ہوجاتی ہیں۔
اس کے برخلاف بازو کے نچلے حصے کی شریانیں اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں ۔ وہاں سے ایک شریان نکالی جائے تو دوسری شریان اس کا ازالہ کرنے کے لیے خود کو منظم کرلیتی ہے۔ اسی بنا پر یونیورسٹی آف میلبرن کے ماہرین نے کہا ہے کہ بازو کی شریانوں سے کیا گیا بائی پاس قدرے بہتر ثابت ہوکر مریض کی دیرپا زندگی کی ضمانت بن سکتا ہے۔
اسی سروے میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کئے گئے 50 ہزار سے زائد بائی پاس آپریشن کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے ۔ پھر رائل میلبرن کے 880 مریضوں کا بھی سروے اس میں شامل ہیں اور سب سے ظاہر ہے کہ ٹانگ کی شریانوں سے ہونے والے بائی پاس ایک عشرے کے بعد ویسے نہیں رہتے اور خون کی فراہمی بند ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ ٹانگ کے مقابلے میں ہاتھ سے شریان نکالنے میں مہارت درکار ہوتی ہے اور شاید اسی وجہ سے ماہرین بازو کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ اگر بازو پرتوجہ دی جائے تو بائی پاس سرجری کا معیار بہت بہتر بنایا جاسکتا ہے۔