199

زمین کے قریبی مدار میں گرد کا بادل دریافت

ہنگری: اب سے 60 سال قبل ماہرین نے کہا تھا کہ زمین کے گِرد مدار میں گرد اور دھول کے بادل گردش کررہے ہیں لیکن ان کی کوئی خاص تصدیق نہیں ہوسکی تھی تاہم اب ماہرین نے تحقیق کرکے بتایا ہے کہ یہ بادل موجود ہیں اور انہیں ’کورڈی لیوسکی‘ بادل کہا گیا ہے۔

اس بار ہنگری کے ماہرین نے زمین سے قریب موجود اس پراسرار اور غیرمعمولی اجسام پر تحقیق کی ہے جو زمین کے بہت قریب پائے جاتے ہیں۔اس ضمن میں ایک ماہر جوڈتھ سلز بالوغ نے کہا ہے کہ دو عدد کورڈی لیوسکی بادلوں کی تلاش ایک بہت محنت طلب اور مشکل ترین کام ہے یہ دونوں زمین کے اتنے ہی قریب ہیں جتنا چاند موجود ہے اور ماہرین نے ان پر توجہ نہیں دی۔‘ تاہم بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ان بادلوں کی تاریخ اس سے بھی پرانی ہے۔

خلا میں یہ بادل ایک ایسے مقام پر موجود ہے جسے لیگ رینج پوائنٹس کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں دو بڑے اجسام کے درمیان ثقلی کشش باہم ملتی ہے اور دھول مٹی کے بادل گویا وہاں تھم گئے ہیں۔ لیگ رینج پوائنٹس پہلی مرتبہ 18 ویں صدی میں دریافت ہوئے تھے۔ اب تک ایسے پانچ مقامات کے بارے میں ہم جان چکے ہیں جن میں زمین اور سورج کا درمیانی نقطہ یا ہماری زمین اور ہمارے چاند کے درمیان بھی ایک پوائنٹ ایسا موجود ہے۔

جہاں تک زمین اور چاند کے لیگ رینج پوائنٹس کا سوال ہے ان پانچ میں سے دو یہاں موجود ہیں جنہیں ایل فور اور ایل فائیو کہا جاتا ہے۔ انہیں ٹروجن پوائنٹس بھی کہتے ہیں جو زمین اور چاند سے یکساں اطراف والی مثلث بناتے ہیں۔ نظری طور پر اس جگہ آنے والے ہلکے ذرات ہمیشہ کے لیے پھنس کر جامد ہوسکتے ہیں اور شمسی ہوا یا سورج کی کشش بھی ان پر اثر نہیں ڈال سکتی۔

1961ء میں پولینڈ کے ماہر کیزی مائرز کورڈی لیوسکی نے گردو غبار کے بادلوں کے جمع ہونے کا تصویری ثبوت دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ گرد کے یہ بادل ہم سے 4 لاکھ کلومیٹر دور ہیں اور اسی بنا پر ان کی تصدیق بہت مشکل ہے۔

ہنگری کے ماہرین نے ایل فائیو میں دھول اور گرد کے بادل کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں 20 لاکھ سے زائد ذرات موجود ہوسکتے ہیں۔ کمپیوٹر ماڈلوں کے مطابق یہ بادل مسلسل شکل بدلتے رہتے ہیں۔ اسی بنا پر ان کی واضح شکل بیان نہیں کی جاسکتی۔

صرف یہی نہیں بغیر چاند کی تاریک راتوں میں ان ماہرین نے ایک انوکھی تکنیک ’سیکوئنشل امیجنگ پولرمیٹری‘ استعمال کی اور اس بادل کی ایک دھندلی سی تصویر بھی بنائی ہے۔ اس طرح برسوں بعد اس بادل کا پہلا تصویری ثبوت سامنے آیا ہے تاہم ایل فور کے بادل کی اب تک کوئی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔