68

شہباز شریف کو سخت سوالات کے جوابات دینا ہونگے

اسلام آباد۔سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو 10 روزہ ریمانڈ کے دوران قومی احتساب بیورو کی طرف سے تیار کردہ2 درجن سوالات کے جوابات دینا پڑ سکتے ہیں جس میں سے ایک الزام اختیارات کے ناجائز استعمال کا بھی شامل ہے ۔

ذرائع کے مطابق اس سے قبل جب وہ نیب میں پیش ہوئے تو ان سے جو سوالات کئے گئے ان کے جوابات سے تفتیش کار مطمئن نہیں ہوئے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ دس روزہ ریمانڈ جو عدالتی حکم کے تحت دیا گیا اس میں تین بار کے سابق وزیر اعلی سے جوسوالات پوچھے جائیں گے ان میں سے ایک پانچ درجن کمپنیوں کے قیام اور متعلقہ اداروں میں ان کی موجود میں ان کے فعال کردار ،ان کی قانونی حیثیت بھی شامل ہے ۔ان کمپنیوں کی ضرورت اور کردار کے حوالے سے بھی سپریم کورٹ میں بحث کی گئی اور سی جے پی میں ان کمپنیوں کے دفاتر سے زیادہ تنخواہ کی دوبارہ واپسی کا بھی حکم دیا تھا ۔

نیب کے سابقہ سوالوں کی روشنی میں شہباز شریف سے جو سوالات کئے جا سکتے ہیں جن میں پنجاب ،لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈکی موجودگی سمیت ایل ڈی اے اور ایف ڈی اے کے قائم کرنے کے پیچھے بنیادی خیال اور وجوہات کیا تھیں۔کیا تم اس بات پر اتفاق کرتے ہو کہ پی ایل ڈی سی آرٹیکل آف ایسوسی ایشن میمورنڈم آف ایسوسی ایشن اور پبلک سیکٹرز کمپنیز کے حوالے سے ایس ای سی پی کے جاری کردہ قواعد وضوابط کے تحت گورنرز ،کمپنی طے کے کردہ رولز اور کمپنی کے سی ای او صرف کمپنی کے معاملات چلانے کے مجاز ہیں ۔وزیراعلیٰ سمیت دیگر ادارے یا فرد اپنے معمول کے مشن مداخلت کرنے کیلئے قانونی مینڈیٹ نہیں رکھتے ہیں جبکہ آپ نے 21-10-2014 کو 97h ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک اجلاس کی قیادت کی جس میں پی ایل ڈی سی کو آشیانہ اقبال اور آشیانہ قائد کے منصوبوں میں ایل ڈی اے کو شامل کرنے کی ہدایت کی ۔دو دن بعد آپ نے پی ایل ڈی سی کو آشیانہ کا کنٹریکٹ ایم ایس سی ایچ لطیف اینڈ سنز کو دینے کے لئے تحریری طور پر ہدایت کی ۔

آپ کا یہ اقدام کسی بھی صورت قانونی نہیں تھا کیونکہ کوئی بھی منصوبہ منسوخ کرنے یا دینے کے حوالے سے باقاعدہ قواعد وضوابط موجود ہیں لیکن آپ کی جانب سے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے 93 ملین کا خزانے ککو نقصان پہنچایا گیا ۔پی ایل ڈی سی کی جانب سے لطیف اینڈ سنز کو پانچ ملین کی ادائیگی کی گئی ۔بعد میں پی ایل ڈی سی نے یہ پراجیکٹ آپ کی ہدایات پر ایل ڈی اے کو دے دیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ایل ڈی سی میں آپ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے اس کا حکم دیا اور اس میں ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل بھی موجود تھے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ معاملہ آپ کی ذاتی دلچسپی پر مبنی تھا جبکہ ایل ڈی اے ڈی جی کے فیصلے پر کنٹرول کرنے کا مجاز نہیں تھا کیونکہ ایل ڈی اے ڈی جی ،پی ایل ڈی سی بورڈ کا حصہ تھا اور وہ تمام ضروری معاونت فراہم کر سکتا تھا کیونکہ پی ایل ڈی سی کو یہ معاملات سنانے کی اجازت نہیں تھی اور مناسب فورم کے بجائے غیر قانونی طور پر متعلقہ فریق کو تنہا کر کے اسے قابل فورم کے ذریعے منتقل کیا گیا ۔ایل ڈی اے کو اس منصوبے کے ذریعے جوائنٹ وینچر میں شامل کیا تھا جس میں لاہورکاسا ڈویلپرز،بسم اللہ انجینئرز،سپارکو ،ایم ایس ہنوئی کانسرکشن چائنا بھی اس کا حصہ بنے۔

کمپنیوں سے وصولی کے لئے اہلیت کا کوئی معیار مقرر نہیں کیا گیا اور ایم ایس بسم اللہ سمیت سی فور کلاس کمپنیوں کو جن کی زیادہ حد 100 ملین تھی ان کو 12 ارب روپے کے اس منصوبے کے لئے اہل قرار دیا گیا ۔اس منصوبے میں کمپنیوں کے ذریعے کم از کم شرائط واضح کی گئیں اور اصل حصے سے 33.33 فیصد کا انعام دیا گیا۔دیگر سوالات میں مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو زمین کی فراہمی میں فائدہ پہنچانے اور رجسٹرڈ کمپنیوں کو مالی نقصان دینے کے حوالے سے سوالات شامل ہیں ۔آشیانہ اقبال کے غر یب لوگوں اور درخواست نادہندہ کو دھوکہ دینے کون ذمہ دار ہے؟اور متاثرہ کئی سالوں سے اپنے نقصان کے ازالے کا انتظار کررہے ہیں ان کا ازالہ کون کرے گا