43

سرکاری رہائش گاہیں حقدارکوملنی چاہیے‘چیف جسٹس

اسلام آباد۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سرکاری رہائش گاہیں خالی کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ سرکاری رہائش گاہیں صرف حقدار کو ملنی چاہیے،پولیس کی مدد سے رہائش گاہیں سیل کردی جائیں، جو سیل توڑے اس کے خلاف عدالت ایکشن لے گی، سیکرٹری سامنے آئیں ، اسٹیٹ افسر کو آگے کررکھا ہے ۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سرکاری رہائش گاہیں خالی کرانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اسٹیٹ افسر کی جانب سے پیش کردہ عذر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آسان حل یہ ہے کہ پولیس کی مدد سے رہائش گاہیں سیل کردی جائیں، جو سیل توڑے اس کے خلاف عدالت ایکشن لے گی۔سماعت کے دوران درخواست گزار نے کہا کہ جنوری میں بچوں کے امتحانات ہونے ہیں اور سی ڈی اے کی جانب سے بقایاجات کے مد میں 148 ملین روپے کا تقاضا بھی کیا گیا ہے ۔

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سی ڈی اے کا گن کلب والا ایشو بھی ابھی تک حل نہیں ہوا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سی ڈی اے نے ابھی تک گن کلب کا بھی قبضہ نہیں لیا ہے۔ انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ کراچی میں اب تک 4220 گھر خالی کرا چکے ہیں ، جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے کہا کہ آپ صرف اسلام آباد کی بات کریں۔چیف جسٹس کی سرزنش پرایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک ناجائز گھر خالی کرانے پر 15 سے 20 ہزار روپے فی گھر خرچ آتا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے استفا ر کیا کہ اس معاملے کے انچار ج کہاں ہیں، بتائیں کہ یہ کیا معاملہ ہے ؟، کیا دہاڑی دار لوگ بھرتی کیے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی میں ساڑھے چار ہزار گھر خالی کرانے کے لیے ایک انسپکٹر بھرتی کر رکھا ہے۔اس موقع پراسٹیٹ افسر نے کہا کہ اگر گھر خالی کرانے کے لیے مزدورلیں تو 7 ہزار روپے خرچہ آتا ہے اور ہمارے پاس ٹرانسپورٹ کا بھی ایشو ہے۔چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آسان حل یہ ہے کہ پولیس کو ساتھ لیں ، جس پر کوئی خرچہ نہیں ہوتا اور گھر سیل کردیں۔ کسی نے سیل توڑی تو ہم ایکشن لیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے کہا کہ سیکرٹری سامنے آئیں ، اسٹیٹ افسر کر آگے کررکھا ہے۔