119

خواجہ سراء تشدد ٗ رپورٹنگ کیلئے انٹرنیٹ اپلیکیشن متعارف

پشاور۔خواجہ سراء پاکستان کا پساہواپسماندہ طبقہ ہیں جو قانونی اور آئینی شناخت ہونے کے باوجودملک بھر میں نہایت ذلت آمیز اور دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ خواجہ سراء پورے پاکستان میں محفوظ نہیں ہیں لیکن خیبرپختونخوامیں خواجہ سراؤں پر تشدد اور حملے روزمرہ کا معمول ہیں۔ جس میڈیا اور سماجی تنظیمیں منظر عام پر لا ئی ہیں۔ خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد اگر چہ عام ہے لیکن اسکی رپورٹنگ کے حوالے سے کوئی نظام موجود نہیں ۔ خواجہ سراؤں کے مطابق ان کے ساتھ کیے جانے والے تشدد میں FIR ایف آئی آر کی شرح 10 فیصد سے بھی کم ہے ۔

خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کے خلاف ڈیٹا بیس کو موئثر ، قابل اعتماد اور آسان بنانے کے لیے پشاور کی سماجی تنظیم بلیووینز نے خواجہ سراؤں پر تشدد کو دستاویز کرنے کے لیے ایک انٹرنٹ اپلیکیشن ’’ٹرانس محافظ ‘‘ کے نام سے متعارف کروائی ہے جسکے ذریعہ خواجہ سراء اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو تنظیم کے ڈیٹا بیس اور دیگر قابل اعتماد ساتھیوں کے ساتھ بانٹ سکیں گے ۔ ٹرانس محافظ نامی انٹرنٹ اپلیکیشن کو اب گوگل کے پلے سٹور پرمفت ڈاون لوڈ اور کسی بھی اینڈرائڈ فون پر باآسانی انسٹال کیا جا سکتا ہے۔

اس اپلیکیشن کے ذریعے نہ صرف منتخب افراد کو سکیورٹی الرٹ بھیجا جا سکتا ہے بلکہ آواز اور ویڈیوکے ذریعے بھی پیغام بھیجا جا سکتا ہے۔ اس اپلیکیشن کے ذریعے اکھٹا ہونے والے معلومات کی ہر تین ماہ ، چھ ماہ، اور سالانہ اشاعت کی جا ئے گئی ۔ ٹرانس ایکشن کی صوبائی صدر فرزانہ جان نے اس موقع پر کہاکہ ’’ خواجہ سراؤں پر تشدد کے حوالے سے پہلی اینڈرائڈ اپلیکیشن کا ہونا نہایت خوش آئندہیں ۔ ہم اُمید کرتے ہیں ہمیں اس اپلیکیشن کے استعمال کی ضرورت کبھی پیش نہ آئے لیکن ایمرجنسی کی کسی بھی صورت میں یہ ہمارے لیے نہایت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔خواجہ سراؤں کی جنرل سیکٹری آرزو خان نے کہا کہ ہمیں بہت ساری شکایت فیس بک اور وائٹس ایپ گروپ کے ذریعہ تشدد کی اطلاع د ی جاتی ہے۔ہم بہت سارے کیسوں کو دستاویز کرنا بھول جاتے ہیں۔ کیونکہ نہ تو تمام کیسوں کی ایف آئی آر ہوتی ہے اور نہ ہی تمام کیس میڈیا میں رپورٹ کیے جاتے ہیں۔آرزو خان نے بتایا کہ 2017 میں خیبرپختونخوا میں 57 خواجہ سراؤں کو قتل کیا گیا جبکہ 208 کے خلاف تشدد کے واقعات پیش آئے آرزو نے کہا کہ اس اپلیکیشن کے ذریعہ نہ صرف خیبرپختونخوابلکہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی تشدد کے واقعات دستاویز کیے جا سکیں گے ۔