76

آب و ہوا میں تبدیلی کے تدارک سے عالمی معیشت کو 26 ٹریلین ڈالر کا فائدہ ہوگا، ماہرین

کلائمٹ چینج کےضمن میں بڑے فیصلوں سے کھربوں روپے کے معاشی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

 واشنگٹن: عالمی آب وہوا کے ماہرین اور معاشیات دانوں نے ایک مشترکہ سروے کے بعد کہا ہے کہ اگر تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی آب و ہوا اور اس کے نقصانات کے ازالے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں تو اس سے 2030 تک پوری دنیا کی معیشت کو 26 ٹریلین ڈالر کا مالی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔

بہ الفاظِ دیگر، عالمی معیشت کو ہونے والا متوقع فائدہ، پاکستان جیسے 83 ممالک کے معاشی حجم جتنا ہوگا۔ (اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، پاکستانی معیشت کا موجودہ حجم 313.3 بلین ڈالر یا 0.3133 ٹریلین ڈالر ہوچکا ہے۔)

آب و ہوا اور معیشت پر بنے عالمی کمیشن کے ماہرین کی جانب سے حال ہی میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق معاشی فوائد کے حصول میں سب سے اہم ہدف ’کم ترین کاربن‘ کا اخراج سرِ فہرست رکھا گیا ہے جسے ماضی میں بری طرح نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ یہی عالمی تپش (گلوبل وارمنگ) کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔

ماہرین کے مطابق فضا میں کاربن کی روک تھام سے 2030 تک اس سے وابستہ کروڑوں نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی اور ہر سال سات لاکھ قبل ازوقت اموات کو بھی ٹالا جاسکے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پوری دنیا میں آب وہوا میں تبدیلی کے حل کے منصوبوں پر عمل نہیں ہورہا کیونکہ بااثر پالیسی سازعمل درآمد میں خود سنجیدہ نہیں۔

کمیشن کے شریک چیئرمین اور نائجیریا کے سابق وزیرِمعاشیات نگوزی اوکونجو آئی ویلا نے بتایا، ’حاصل کرو یا کھودو کا وقت آچکا ہے اور پالیسی سازوں کو اس بریک پر سے اپنا پاؤں اٹھانا ہوگا۔ پوری دنیا میں نئی ملازمتوں، معاشی بچتوں، مسابقت، مارکیٹ مواقع اور عوامی بھلائی کے حقیقی فوائد ہمارے سامنے آچکے ہیں۔‘

سخت اقدامات کی ضرورت

ماہرین نے اتنی اہم تبدیلی کے لیے 5 کلیدی نکات پر زور دیا ہے جن میں شہری منصوبہ بندی، صاف توانائی، باکفایت اورپائیدار زراعت، پانی کا ذہانت بھرا انتظام اور کاربن جذب کرنے والی صنعتوں کا فروغ شامل ہے؛ لیکن ان سے فوائد صرف اسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب پوری دنیا اگلے 2 سے 3 سال میں ان نکات پر عمل شروع کرے، ہمارے آج کے فیصلے عشروں کے نتائج پر اثرانداز ہوں گے۔

حکومتوں سے 2020 تک کاربن ٹیکس کے نفاذ کی سفارش کے ساتھ ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے بڑے اداروں سے لازمی پوچھا جائے تاکہ وہ اپنے کاربن اخراج کے بارے میں درست اعدادوشمار پیش کرسکیں۔ رپورٹ میں پائیدار اور ماحول دوست انفرااسٹرکچر، شہروں کی مؤثر ڈیزائننگ، جنگلات میں سرمایہ کاری اور دیگر عوامل پر زور دیا گیا ہے۔