سائنس دان یہ راز جاننے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ اعصابی نظام یکساں ہونے اور دماغ کی ایک جیسی ساخت رکھنے والے انسانوں میں سے کچھ کا حافظہ تیز اور کچھ کی یادداشت کمزور کیوں ہوتی ہے۔
انسان حیرت انگیز تخلیق ہے اس کا جسم ایک جیسے نظاموں سے مل کر تشکیل پاتا ہے لیکن ہر اک فرد کا انداز، رنگ اور ناک نقشہ دوسرے سے اتنا مختلف ہوتا ہے کہ ہر ایک فرد کو بہ آسانی پہچانا جا سکتا ہے۔ شاید اسی لیے انسان کو ’احسن التخلیق‘ کہا گیا ہے۔
ہم سب ایک جیسا اعصابی نظام رکھتےہیں اور ہمارے دماغ کی ساخت بھی یکساں ہے لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ بلا کے ذہین ہوتے ہیں اور کچھ کند ذہن ہی رہتے ہیں۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ ہمارے اطراف میں موجود لوگوں میں سے کچھ کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے لیکن کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں چیزیں یاد کرنے میں اور ماضی کھنگالنے میں دقت محسوس ہوتی ہے۔
سائنس دان برسوں کی تحقیق کے بعد حافظے کے تیز یا کمزور ہونے کے راز کو جاننے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ سائنسی جریدے نیورون میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دراصل اعصابی نظام کی اکائی ’نیورون‘ کی ایک خاص قسم حافظے اور یاداشت کی ذمہ دار ہے۔ یاد داشتیں جنیاتی کوڈذ کی طرح ان جوڑی دار نیورون میں بلحاظ نوعیت حادثہ و واقعہ ترتیب وار محفوظ رہتی ہیں۔
یہ نیورون جسے Hippocampal Neuronal Tuplets کا نام دیا گیا ہے جو دماغ کے حصے Hippocampus میں موجود ہوتے ہیں۔ دماغ یہ کروی حصہ نئی یادداشتوں کے لیے دماغ کے ’ میموری کارڈ‘ میں گنجائش پیدا کرتا ہے۔ عمومی طور پر دن بھر یادداشت رات کی بھرپور نیند لینے کے بعد ذہن سے محو ہوجاتی ہیں اور اس کی جگہ نئے دن کی تازہ یادداشتیں لے لیتی ہیں۔
جوڑی دار Hippocampal Neuronal واقعات اور حادثات کو ترتیب وار محفوظ رکھتے ہیں اور جیسے ہی ان جیسا ملتا جلتا واقعہ رونما ہوتا ہے تو پرانے قصے ’اَن کوڈ‘ ہو جاتے ہیں۔ اسی کی دوسری خاصیت نئی یاداشت کے لیے جگہ بنانا بھی ہے۔ کچھ لوگوں میں دماغ کا یہ حصہ زیادہ بہتر کام کرتا ہے اور وہ پرانے واقعات اور حادثات یا یاداشتوں کو بہتر طور پر ’ ری کال‘ کر پاتے ہیں جب کہ نئی یادداشت کے لیے جگہ پیدا کرنے کی وجہ سے ان میں نئی چیزوں کو جلدی یاد کرلینے کی صلاحیت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔