167

مودی سرکار کا مذہبی آزادی پر ایک اور حملہ، مسلمانوں کو گائے کی قربانی سے روک دیا

نئی دہلی: بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے مسلمانوں کے مقدس مذہبی تہوار عید الاضحٰی پر کھلے مقامات پر گائے کی قربانی پر پابندی عائد کردی ہے۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست اتر پردیش کی حکومت کی جانب سے عید الاضحیٰ کے موقع پر کھلے مقامات پر قربانی پر مکمل پابندی عائد کرنے کا اعلان سامنے آیا، جسے مسلمانوں نے مذہبی آزادی پر حملہ قرار دے دیا۔

اس ضمن میں اترپردیش کے وزیراعلیٰ ادیتیہ یوگی ناتھ نے پولیس کو خصوصی ہدایت جاری کیں اور خلاف وزری کرنے پر گرفتاری کا حکم دیا۔

ادیتیہ یوگی ناتھ نے مسلمانوں کے حوالے سے اقدامات اٹھاتے ہوئے متعلقہ حکام کو کہا کہ ’عیدالاضحیٰ کے موقع پر گائے کی قربانی پر مکمل پابندی ہوگی‘۔

دوسری جانب ڈپٹی وزیراعلیٰ نے ریاستی حکومت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ ادیتیہ یوگی ناتھ کے فیصلے کا مقصد تہوار کو ’پر امن‘ طریقے سے منانا مقصود ہے۔

واضح رہے کہ ہندوؤں کے نزدیک گائے ایک مقدس جانور ہے جس کی وہ پوجا کرتے ہیں۔

اس سے قبل بھی بھارت کی مختلف ریاستوں میں گائے کو ذبح کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

مدیحہ پردیش میں گائے ذبح کرنے والے پر 7 سال قید اور 5 ہزار روپے جرمانے کی سزا کا قانون رائج ہے، یاد رہے کہ ریاست نے اس حوالے سے 2012 میں قانون میں ترمیم کی تھی۔

بھارت میں بڑھتے ہوئے مذہبی انتہاپسندی کا اصل محرک نریندر مودی کو سمجھا جاتا ہے جن کے مسلمان اور اسلام مخالف بیانات کے باعث ہندو قوم پرست جماعت راشٹریہ شیوک سنگھ (آرایس ایس) کے حامیوں نے گائے کے گوشت کے خلاف ایک زہر آلود مہم کا آغاز کردیا ہے۔

آرایس ایس کا دعویٰ ہے کہ ان کے مخبر شہروں اور گاؤں میں پھیل چکے ہیں جو گائے کو ذیح یا اس کا گوشت بیچنے والوں کی خبریں جمع کررے ہیں۔

اسی ضمن میں گزشتہ چند برس سے گائے ذیح کرنے کا الزام لگا کر متعدد مسلمانوں کو تشدد کے بعد جان سے مار دیا گیا۔

رواں برس 20 جون کو بھارت کی ریاست اتر پردیش میں مشتعل ہجوم نے گائے ذبح کرنے کا الزام لگا کر 2 مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ایک ہلاک اور دوسرا شدید زخمی ہوگیا تھا۔

جاں بحق ہونے والے شخص کی شناخت 45 سالہ قاسم کے نام سے کی گئی جبکہ مقامی ہسپتال میں زیر علاج زخمی شخص کی شناخت 65 سالہ سامایودین کے نام سے ہوئی تھی۔

واضح رہے کہ ہندو اکثریتی آبادی والے بھارت میں گائے کے ذبح اور اسمگلنگ کے حوالے سے بڑھتی ہوئی کشیدگی کی لہر دیکھی جاچکی ہے، جہاں جھارکھنڈ سمیت متعدد ریاستوں میں گائے کو ذبح کرنا قابل سزا جرم ہے۔

بھارت میں گائے کے مبینہ ذبح اور اس کا گوشت کھانے پر متعدد افراد بالخصوص مسلمانوں اور دَلتوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔

20 جون کو ریاست مدیحہ پردیش کے ضلع ساتنا میں گائے ذبح کرنے کے الزام میں مشتعل ہجوم نے 45 سالہ ریاض کو لاٹھی اور پتھر سے تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ جاں بحق ہوگیا، جبکہ اس کا دوست 33 سالہ شکیل واقعے میں شدید زخمی ہوا۔

انہی دنوں مذکورہ علاقے کی سیکیورٹی انتہائی سخت تھی جہاں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ 2 روزہ دورے پر موجود تھے۔

2015 میں بھی ایک مسلمان شخص کو اس کے پڑوسیوں نے اس شبے میں قتل کردیا تھا کہ اس نے گائے کو ذبح کیا ہے تاہم بعد ازاں پولیس کا کہنا تھا کہ مقتول کے گھر سے برآمد ہونے والا گوشت بکرے کا تھا۔

5 اپریل 2017 کو بھارت میں گائے ذبح کرنے پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران ہندو انتہا پسندوں کے تشدد سے گائے کی ترسیل کرنے والا مسلمان شخص جاں بحق ہوگیا تھا۔

یکم مئی 2017 کو بھارتی ریاست آسام میں گائے چوری کے شبہ میں 2 مسلمان نوجوانوں کو مشتعل افراد نے تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

25 جون 2017 کو بھارتی پولیس نے دارالحکومت نئی دہلی کے قریب چلتی ٹرین میں ایک مسلمان کو چاقو کے وار سے ہلاک کرنے والے ہندو کو گرفتار کرلیا تھا۔

28 اگست 2017 کو بھارت کی مشرقی ریاست بنگال کے ایک گاؤں میں ٹرک پر مویشی لے جانے والے 2 مسلمانوں کو مشتعل دیہاتیوں نے تشدد کرکے ہلاک کردیا تھا۔

ناقدین کے مطابق 2014 کے انتخابات میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور نریندر مودی کی وجہ سے ان انتہاپسند افراد کو زیادہ حوصلہ ملا ہے۔

2016 میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے گائے کی حفاظت کرنے والے افراد پر تنقید کرتے ہوئے ان افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا جو مذہب کا استعمال کرکے جرم کررہے ہیں۔

علاوہ ازیں 2017 میں بھارتی وزیراعظم کی جانب سے ملک کی سب سے زائد آبادی والی ریاست اترپردیش کے لیے وزیر اعلیٰ کے لیے دائیں بازو کے ہندو پجاری کا تقرری کیا تھا جس نے صورتحال مزید گمبھیر کی۔