روم، اٹلی: نیند کی کمی سے نہ صرف روزمرہ کے معمولات متاثر ہوتے ہیں بلکہ اس سے دماغ کے اندر پیدا ہونے والے فاسد مادے اور دماغی تھکاوٹ بھی دور ہوجاتی ہے۔ لیکن نیند کی مسلسل کمی سے نیورون کم ہونے لگتے ہیں اور ان کے درمیان باہمی روابط بھی کمزور ہوجاتے ہیں اوربعد کی نیند بھی اس نقصان کا ازالہ نہیں کرپاتی۔
اس ضمن میں اٹلی میں مارشے پولی ٹیکنک یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل بیلیسے نے چوہوں پر بے خوابی اور مکمل نیند کے تجربات کیے ہیں اور اس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔
واضح رہے کہ دماغی خلیات یا نیورونز دو طرح کے ذیلی گلائیل خلیات سے مسلسل تازہ ہوتے رہتے ہیں جنہیں اعصابی نظام کا گوند بھی کہا جاتا ہے۔ مائیکروگلائیل خلیات دماغ سے ٹوٹے پھوٹے خلیات کو باہر نکالتے رہتے ہیں اور یہ عمل فیگوسائٹوسِس کہلاتا ہے۔
نیند اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور دماغ سے فالتو مواد اور ٹوٹ پھوٹ کو دور کرتی رہتی ہے۔ لیکن نیند کی کمی سے دماغ متاثر ہوتا ہے اور یوں خود اپنے آپ کو نقصان پہنچانا شروع کردیتا ہے۔ ماہرین نے حیرت انگیز طور پر دیکھا کہ نیند کی کمی سے دماغی خلیات کے رابطے یا کنکشنز شدید متاثر ہونے لگے۔ اس شے کی مزید کھوج کےلیے انہوں نے چوہوں کے دماغ کے اسکین لینے شروع کیے۔
ان چوہوں کو چار گروہوں میں بانٹا گیا: چھ سے آٹھ گھنٹے سونے والے چوہے، دوسرے گروہ کو اچانک بار بار نیند سے اٹھایا گیا، تیسرے گروپ کے چوہوں کو آٹھ گھنٹے تک نیند کے بجائے جگایا گیا اور جبکہ آخری گروہ کو مسلسل پانچ روز تک سونے نہیں دیا گیا یعنی ان میں نیند کی شدید کمی پیدا کی گئی۔
ان میں سے آٹھ گھنٹے جاگنے والے اور مسلسل پانچ روز نہ سونے والے دونوں طرح کے چوہوں میں ایک ایسی سرگرمی پیدا ہوئی جس میں مائیکروگلائیل نے رابطہ خلیات کو عین اسی طرح کھانا شروع کردیا جس طرح وہ نیند میں دماغ کے فاسد مواد کو تلف کرتے تھے اور ان میں یہ شرح 14 فیصد تک نوٹ کی گئی جو حیرت انگیز ہے۔
بری خبر یہ ہے کہ ماہرین نے کہا کہ اس طرح بہت سی بیماریوں کا راستہ کھل سکتا ہے جن میں اعصابی انحطاط اور الزائیمر بھی شامل ہیں۔ یعنی نیند کی مسلسل کمی ہمیں الزائیمر جیسے مرض کی جانب لے جاسکتی ہے۔ تاہم اب تک ہم حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے ہیں انسانوں پر بھی یہی کچھ گزرتا ہے لیکن چوہوں پر ماضی میں کی گئی اہم تحقیق انسانوں پر ثابت ہوتی رہی ہیں اور ایک دن شاید ان کے درمیان کوئی مماثلت سامنے آسکتی ہے۔
اپنی نوعیت کی یہ اہم تحقیق جرنل آف نیوروسائنس میں شائع ہوئی ہے۔