86

جج کے پاس من پسند فیصلے کرنیکا کوئی اختیار نہیں ،چیف جسٹس

لاہور۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ جج کے دل میں جو آئے اس کے مطابق فیصلہ کرنیکا کوئی اختیار نہیں،سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ جرمانہ سزاء کا حصہ ہے جسے کسی صورت معاف نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور جسٹس اعجازالاحسن نے کروڑوں روپے کے کے ٹیکس فراڈ میں جرمانے کے خلاف اڑتالیس اپیلوں کی سماعت کی،چیف جسٹس نے ملزمان کے وکیل احمد اویس سے استفسار کیا کہ کروڑوں روپے کے ٹیکس فراڈ میں سپیشل جج سینٹرل نے سزا کے ساتھ صرف فی کس تین ہزارروپے جرمانہ کیسے کردیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے تحت سزاء کے ساتھ غبن کی جانے والی رقم کے برابر جرمانہ کیا جانا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جج کے دل میں جو آئے اس کے مطابق فیصلہ کرنیکا کوئی اختیار نہیں، قانون کے تحت ٹرائل عدالت کے جج کو اپنے فیصلے میں صوابدیدی اختیارکو استعمال کرنے کی وجوہات بیان کرنی چاہئیں تھیں جو کہ نہیں کی گئیں، بادی النظر میں دکھائی دے رہا ہے کہ کہیں مک مکاہوا ہے اور جج نے اپنے اختیار کا غلط استعمال کیا ہے، عدالت کو بتایا جائے کہ ابھی یہ جج اپنے عہدے پر موجود ہے۔

ملزمان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے کا فیصلہ کرنے والے جج نسیم اختر خان ریٹائرڈ ہو گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر جج عہدے پر ہوتا تو اسے نوٹس بھیجا جاتا، چیف جسٹس نے ملزمان کے وکیل کی جرمانے میں کمی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ انہیں بچانا چاہتے ہیں جنہوں نے مال کھایا اگر ملزمان بے گناہ تھے تو ٹرائل عدالت کے سامنے اقرار جرم کیوں کیا، ٹرائل عدالت کا اختیار ہے کہ سزاء بھی کرئے اور جرمانہ کی ادائیگی کا بھی حکم دے ، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ جرمانہ سزاء کا حصہ ہے جسے کسی صورت معاف نہیں کیا جاسکتا، عدالت ٹیکس فراڈ کے مقدمات میں کسی قسم کی رعائت نہیں دے سکتی۔