102

توہین عدالت ٗ دانیال عزیز کیس میں فیصلہ محفوظ

اسلام آباد۔سپریم کورٹ نے وفاقی وزیردانیال عزیزکے خلاف توہین عدالت کیس میں فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جبکہ دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے خصوصی بینچ کے سربراہ جسٹس عظمت سعیدنے کہاہے کہ اظہار رائے کی آزادی پر بھی توازن ہوتا ہے، عدلیہ ایک ادارہ ہے، عدلیہ کی اتھارٹی نہ رہے تو کیا رہ جائے گاپارلیمنٹ میں بھی توہین عدالت کی اجازت نہیں موچی گیٹ پر جو بات کی جاتی ہے وہ پارلیمنٹ کے فلور پر نہیں ہوسکتی، کئی ایسے ممالک ہیں جہاں جمہوریت ہے لیکن عدلیہ آزاد نہیں ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے دانیال عزیز توہین عدالت کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو استغاثہ کی طرف سے پراسیکیوٹر رانا وقار نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ عدالت کے خلاف بیان دیکر نظام انصاف پر حملہ کیا گیا۔

عدلیہ کی تذلیل کسی صورت برداشت نہیں، تین تقاریر کے علاوہ بھی مواد موجود ہے لیکن مقدمہ کے لیے تین تقاریر آئیں، دانیال عزیز نے بیان دیا کہ نگران جج نے ریفرنس تیار کروائے اور عمران خان کی بریت اور جہانگیر ترین کی نااہلی کو سکرپٹڈ قرار دیااور دانیال عزیز نے عدلیہ کی اتھارٹی کو کمتر جانا جبکہ ملزم نے نے اپنے بیانات سے انکار نہیں کیا ،پراسیکیوٹر نے کہاکہ فرد جرم کے بعد دانیال عزیز کی تقریروں پر دو گواہ عدالت میں پیش کیے۔

ایک اخبار کے رپورٹر نے دانیال عزیز کی پریس کانفرنس کا درست تاثر رپورٹ کیا، ایک صحافی یہ تاثر لے سکتا ہے تو عام پبلک کیسے متاثر نہیں ہوسکتی، آئین اور قانون کے تحت عدلیہ کو اسکینڈلائز نہیں کیا جاسکتا، رانا وقارنے کہاکہ جسٹس اعجازالاحسن کو عدالت عظمی نے نگران جج مقرر کیاتویہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ ایک جج اپنے حلف سے روگردانی کرے گا، دانیال عزیز نے عمران خان اور جہانگیر ترین کیس کے فیصلوں پر رائے زنی میں توہین عدالت کی ہے،اورعدالت عظمی کے جج اور عدلیہ پر حملہ کیا۔

رانا وقار کا کہنا تھا کہ دانیال عزیز نے جے آئی ٹی کی تشکیل پر بھی توہین آمیز گفتگو کی، فیصلہ کسی جج کا نہیں عدلیہ کا ہوتا ہے، اس لئے کسی شخص کو عدلیہ کی تضحیک کی اجازت نہیں دی جاسکتی، انہوں نے درخواست کی کہ دانیال عزیز کو توہین آمیز بیانات پر مجرم قرار دے کر توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ توہین عدات کا معاملہ عدلیہ اور ملزم کے مابین ہے اس لئے عدلیہ جو مناسب سمجھے فیصلہ کرے۔

اس دوران دانیال عزیز کے وکیل علی رضانے کہاکہ ان کے موکل عدالتی توہین کے مرتکب نہیں ہوئے،عدالت عظمی ایک آئینی ادارہ ہے، دانیال عزیز نے عدالتی فیصلوں پر تنقید کی ہے، اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ دانیال عزیز پر فرد جرم عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنے پر دائر نہیں کی،اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ دانیال عزیز عدلیہ کی عزت کرتے ہیں اس میں کوئی اگر مگر نہیں ، جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ اگر مگر تو ہے، کیا آپکا موقف ہے کہ توہین ہوئی تو افسوس ہے؟ 

وکیل کا کہنا تھا کہ دانیال عزیز نے جسٹس اعجاز الاحسن سے متعلق کوئی تضحیک آمیز بیان نہیں دیا، نجی ٹی وی نے پرائیوٹ تقریب کی ویڈیو کو نشر کیاجسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ نجی ٹی وی ہر چلنے والی ویڈیو کے نکات کی تردید نہیں کی گئی،وکیل کا کہنا تھا کہ نجی ٹی وی کے بیان کی ٹرانسکرپٹ کو دانیال عزیز نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، جس پر فاضل جج نے کہاکہ دانیال عزیز کے تحریری بیان کا جائزہ بھی لیا ہے۔

اسلئے آپ دانیال عزیز کا نجی ٹی وی پر چلنے والی ویڈیو پر موقف پرکھیں۔وکیل نے کہاکہ نجی ٹی وی کی ویڈیو سے غلط تاثر دینے کی کوشش کی گئی، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ دانیال عزیز عدالت کے فیورٹ چائلڈ ہیں کیونکہ ملزم عدلیہ ہمیشہ فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے، جسٹس شیخ عظمت کا کہنا تھا کہ ملزم کو صفائی کا موقع دینگے، ایسے فیصلہ نہیں کرینگے،ٹرانسکرپٹ تیار کرنے میں غلطی کو مان لیں گے۔

اس پر وکیل نے کہاکہ نجی ٹی وی نے دانیال عزیز کے بیان کی غلط ہیڈ لائن نکالی، اس پر جسٹس عظمت نے کہاکہ ٹی وی کی ہیڈ لائن پر ملزم کو چارج نہیں کیا، وکیل نے کہاکہ دانیال عزیز کی تقریر کے مخصوص حصہ کو چلایا گیااور دانیال عزیز کا بیان نجی تقریب میں تھا،دانیال عزیز نے اپنے بیان میں کسی جج کا نام نہیں لیا۔ جسٹس عظمت سعید نے سوال اٹھایا کہ ایف زیڈ ای کو کھولنے کا معاملہ کس جج کے فیصلہ میں لکھا گیا؟

اس پر وکیل نے کہاکہ جسٹس اعجاز الاحسن کے فیصلہ میں ایف زیڈ ای کا لکھا گیا، اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ نیم عقلمند شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ مخاطب کون تھا، وکیل نے کہاکہ نجی ٹی وی نے مخصوص حصہ چلا کر سنسنی پیدا کی حالانکہ دانیال عزیز نے کوئی عوامی خطاب نہیں کیا، ٹی وی چینلز کی بھی ذمہ داری ہے کہ توہین آمیز مواد نشر نہ کریں ۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ میری جانب سے فیئر کمنٹ کی اجازت ہے، حتی کہ میں تو ان فئیر کمنٹ کو بھی برداشت کرلیتا ہوں۔

آپکے موکل نے عدالتی فیصلہ پر نہیں جج کی ذات پر بات کی، فیصلوں پر تنقید سے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا، اس پر وکیل نے کہاکہ اب وقت بدل گیا ہے، توجسٹس عظمت سعیدنے کہاکہ وقت نہیں بدلا، ہم وقت کو بدلتے ہیں۔وکیل نے کہاکہ جاوید ہاشمی نے بھی اپنے بیان میں سکرپٹ کا لفظ استعمال کیا، جاوید ہاشمی پی ٹی آئی کا حصہ رہے،جاوید ہاشمی نے اسٹیبلشمنٹ کے سکرپٹ کا تذکرہ کیاتودانیال عزیز نے پی ٹی آئی کے منصوبہ کی بات کی برطانوی راج کے بقایا جات اداروں سے مراد بھی اسٹیبلشمنٹ تھی، جسٹس عظمت سعید نے سوال کیاکہ پاکستان کی سب سے پرانی عدالت کونسی ہے۔

وکیل نے جواب دیا کہ لاہور ہائیکورٹ کی عمارت سب سے پرانی اور انگریزوں کے دور کی ہے، تاہم دانیال عزیز نے سکرپٹ کا لفظ جاوید ہاشمی کی تقریر سے لیا،دانیال عزیز کو اردو ٹھیک نہیں آتی، انگریزی اور پنجابی کے ماہر ہیں، ان کا کبھی توہین عدالت کا ارادہ نہیں تھا۔ جسٹس عظمت سعیدنے کہاکہ اظہار رائے کی آزادی پر بھی توازن ہوتا ہے، عدلیہ ایک ادارہ ہے، عدلیہ کی اتھارٹی نہ رہے تو کیا رہ جائے گاپارلیمنٹ میں بھی توہین عدالت کی اجازت نہیں موچی گیٹ پر جو بات کی جاتی ہے وہ پارلیمنٹ کے فلور پر نہیں ہوسکتی، کئی ایسے ممالک ہیں جہاں جمہوریت ہے لیکن عدلیہ آزاد نہیں۔

آپ مقدمات پر گفتگو کورٹ کے صحافیوں پر چھوڑ دیں، جب دوسرے ایسی گفتگو میں چھلانگ لگاتے ہیں تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔فاضل جج نے استفسار کیاکہ دانیال عزیز کی تعلیم کیا ہے، تو وکیل نے بتایا کہ دانیال عزیز اکانومسٹ ہیں اوردانیال عزیز عدلیہ کا احترام کرتے ہیں، فاضل جج نے کہاکہ اکانومسٹ کا کام بولنا نہیں کام کرنا ہوتا ہے، اس دوران وفاقی وزیردانیال عزیز روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ انہوں نے عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد کی ہے۔اس دوران عدالت نے توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جسٹس شیخ عظمت سعید نے تمام وکلا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ دانیال عزیز آپ نے بھی کیس برا پیش نہیں کیا۔ 

تودانیال عزیزنے کہا کہ میرے بال سفید ہوگئے، زمانہ نے مجھے درست کردیا ہے، عدلیہ اور قوانین کی بہتری کے لیے جدوجہد کی ہے، جسٹس عظمت سعیدنے کہاکہ دانیال عزیزیہ تقریر آپ نے عدالت کے باہر کرنی ہے،آپ عدالت کے اندر تقریر کرنا شروع ہوگئے، دانیال عزیز نے کہاکہ 2013 کے بعد ٹی وی چینل کا ماحول بدل گیاملک کے اداروں کو بنانے میں اپنا خون اور کندھا دیا ہے۔

ایک پیسہ کا الزام نہیں ہے، جسٹس عظمت سعیدنے ان سے کہاکہ یہ ایشو عدالت کے سامنے نہیں ہے، جلسہ سے جب لوگ اٹھ کر جانا شروع ہو جائیں تو بات ختم کردیتے ہیں، اس پر دانیال عزیز نے کہاکہ عدالت نے اپنا فیصلہ کرنا ہے،لیکن عدلیہ کے احترام پر کوئی اگر مگر والی بات نہیں۔