268

سمندری پانی کو میٹھا بنانے والا جدید آلہ ایجاد

ٹیکساس: سائنس دان شمسی توانائی اور نینو پارٹیکلز کی مدد سے سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

امریکا کی دو معروف جامعات ییل اور رائس یونیورسٹی (Yale & Rice University ) کے سائنس دان ایک ایسا نظام تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کی مدد سے کھارے پانی کو پینے کے قابل بنایا جاسکے گا جب کے اس عمل میں لاگت بھی کم آئے گی اور یہ شمسی توانائی کے ذریعے کام کرسکتا ہے جسے دور دراز علاقے میں گھریلو استعمال میں بھی لایا جا سکتا ہے اور بڑے پیمانے پر سمندر کے پانی کو پینے لائق بنانے کی جانب پہلا قدم بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

یہ آلہ دراصل نہایت باریک ترین ذرات پر مشتمل ہے جسے Nano particles  کہا جاتا ہے اور جو اپنے گرد ایک حصاری جھلی رکھتے ہیں اس جھلی کی خاص بات اس میں موجود آئنز اور نامیاتی  و غیر نامیاتی مالیکیولز ہیں جس کی بدولت یہ ایک مکمل خلیہ بن جاتے ہیں۔

یہ نینو پارٹیکلز سورج کی شعاعوں کو پانی گرم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس میں موجود کاربن ذرات پر مشتمل ایک جھلی پانی میں سے نمک اور غیر مستحکم (Non-Volatile) اجزاء کو علیحدہ کردیتی ہے جب کہ یہ نینو پارٹیکلز پانی کے بخارات کو اس پورے نظام سے گزرنے میں مدد دیتے ہیں۔

اس سے قبل آسموسس کے ذریعے بھی پانی کو پینے کے قابل بنایا جاتا تھا لیکن اس طریقہ کار میں بجلی بہت زیادہ خرچ ہوتی تھی جب کہ وہ زیادہ کثافت والے نمکین پانی کو پینے کے قابل بنانے میں موثر ثابت نہیں ہوئی اس کے مقابلے میں باریک خلیوں پر مشتمل جھلی اور شمسی توانائی کی مدد سے کھارے پانی کو کشید کرنے کے عمل  Nanophotonics-enabled solar membrane distillation  زیادہ موثر اور ارزاں بھی ہے۔ اس کے علاوہ تھرمل پروسس کے ذریعے بھی کھارے پانی سے نمکین ذرات کو کشید کیا جا سکتا ہے تاہم اس نظام کو توانائی کے پلانٹ کے نزدیک ہی نصب کیا جاسکتا تھا جو کہ مہنگا اور مشکل مرحلہ تھا۔

اس ٹیکنالوجی کی تیاری میں بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے ’ نینو ٹیکنالوجی این ایبل واٹر ٹریٹمنٹ‘ (NEWT) کی معاونت شامل رہی ہے جو بنیادی طور پر رائس یونیورسٹی کا شعبہ ہے اور جہاں ییل یونیورسٹی سمیت دیگر پارٹنرز ( سرکاری و غیر سرکاری) نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور آلے کی تیاری کے لیے 18.5 ملین ڈالر کی گرانٹ قومی سائنس فاؤنڈیشن نے ادا کی۔

واضح رہے کہ Nanophotonics-enabled solar membrane distillation کا قیام 2015ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس ادارے کی بنیادی ذمہ داری صاف اور شفاف پانی کی فراہمی کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے نئے پروجیکٹس تیار کرنا تھا۔