5

پاکستان میں تین کروڑ سے زائد لوگ ذیابیطس کا شکار

تحریر (شازیہ انور)فی زمانہ عام ترین بیماریوں میں ایک بہت عام بیماری ذیابیطس ہے جسے خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بیماری انتہائی تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس کی شرح کو تشویشناک قرار دیا جا رہا ہے۔

اس بیماری کی اہمیت اور عوام الناس میں اس کے حوالے سے آگاہی اور شعور بیدار کرنے کی غرض سے 2007 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 61آ 225 منظور کی جس میں 14 نومبر کو ذیابیطس کا عالمی دن قرار دیا گیا۔

دستاویز میں انسانی صحت کو فروغ دینے ‘بہتر بنانے ‘علاج اور صحت کی دیکھ بھال کی تعلیم تک رسائی فراہم کرنے کےلئے کثیر الجہتی کوششوں کو آگے بڑھانے کی فوری ضرورت کو بھی تسلیم کیا گیا ۔

قرارداد میں رکن ممالک کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ ذیابیطس کی روک تھام‘ علاج اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کی پائیدار ترقی کے مطابق قومی پالیسیاں تشکیل دیں جس کے بعد سے آج تک دنیا بھر میں ذیابیطس سے بچاؤ کا عالمی دن 14 نومبر کو منایا جاتا ہے۔

یہ دن انسولین کے موجد فریڈرک بینٹنگ کا یوم پیدائش بھی ہے ‘اس طرح سے اس دن اس عظیم ماہر طب کو خراج تحسین بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد ذیابیطس کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے۔یہ دنیا کی سب سے وسیع ذیابیطس آگاہی مہم ہے‘ جو 160 سے زائدممالک میں ایک بلین سے زیادہ لوگوں تک پہنچتی ہے۔

یہ مہم ذیابیطس کے شکار لوگوں صحت کے پیشہ ور افراد‘ ذیابیطس کے حامیوں‘ میڈیا‘ عوام اور سرکاری اداروں کو ذیابیطس کے بارے میں آگاہی اور ذیابیطس کے شکار لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کیلئے عالمی پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ذیابیطس کے عالمی دن26-2024 کا موضوع ’’ذیابیطس اور فلاح و بہبود‘‘ہے۔

ذیابیطس ایک دائمی اور موروثی بیماری ہے جو اس وقت ہوتی ہے جب لبلبہ کافی انسولین پیدا نہیں کرتا یا جب جسم انسولین کو مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کرپاتا۔ اس سے خون میں گلوکوز کے ارتکاز میں اضافہ ہوتا ہے۔ذیا بیطس کی تین بنیادی اقسام ہیں۔

ٹائپ ون ذیابیطس (پہلے انسولین پر منحصر یا بچپن میں شروع ہونے والی ذیابیطس کے طور پر جانا جاتا تھا) انسولین کی پیداوار کی کمی کی خصوصیت ہے۔

ٹائپ ٹو ذیابیطس (جسے پہلے انسولین پر منحصر یا بالغوں کا ذیابیطس کہا جاتا ہے) جسم کے انسولین کے غیر مؤثر استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ اکثر جسم کے اضافی وزن اور جسمانی غیر فعالیت کا نتیجہ ہوتا ہے۔

ذیا بیطس کی تیسری قسم گسٹینیل ڈائباٹیس ہے جو حمل کے دوران نوٹ کی جاتی ہے ۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 463 ملین بالغ افراد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں ‘ان میں سے نوے فیصد افراد ٹائپ ٹو ذیابیطس کا شکا رہیں جبکہ 1980 میں یہ تعداد 108 ملین تھی۔ 1980 کے بعد سے ذیابیطس کا عالمی پھیلاؤ تقریبا دوگنا ہو گیا ‘بالغ آبادی میں یہ مرض4.7 فیصد سے بڑھ کر 8.5فیصد ہو گیا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ذیابیطس کے پھیلاؤ میں زیادہ آمدنی والے ممالک کے مقابلے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

ایک اخباری خبر کے مطابق دنیا میں ذیابیطس کا سب سے زیادہ پھیلائو چین میں ہوا ہے جبکہ پاکستان اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے جہاں 2016 میں ذیا بیطس کے مریضوں کی شرح11.77فیصد‘ 2018میں 16.98اور 2019 میں 17.1فیصد تھی ۔

2021 میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 123,526,400 افراد ذیابیطس کا شکار تھے جبکہ بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق 2022 میں پاکستان میں 26.7 فیصد بالغ افراد ذیابیطس سے متاثر ہوئے جن کی کل تعداد تقریباً 000,000 33,ہے۔

یہ تعداد تشویشناک حد تک زیادہ ہے اور ہر گزرتے سال کےساتھ بڑھ رہی ہے- اس بات پر یقین اس لئے بھی کیا جاسکتا ہے کہ بہت سے لوگوں میں مرض کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی جس کی وجہ سے علاج تاخیر کا شکار ہوتا ہے جس کے سبب اس کا پھیلاؤ اور پیچیدگیوں کا خطرہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔

ذیا بیطس کی پیچیدگیوں میں دل کی بیماری‘ فالج ‘ اعصابی مسائل‘ السر‘ گردوں کی بیماری ‘ آنکھ کے ریٹینا کو پہنچنے والا نقصان شامل ہے جو اندھے پن ‘ موتیا بند اور گلوکوما کاسبب بن سکتا ہے۔جلد کا انفیکشن‘ حاملہ خواتین میں پیچیدگیاں وغیرہ شامل ہیں ۔

ذیابیطس کی واضح علامات میں بار بار پیشاب آنا‘ ضرورت سے زیادہ پیاس لگنا یا وزن میں اچانک کمی ہونا شامل ہیں۔ ایسی کسی بھی علامت کی صورت میں فوری طور پر اپنے ڈاکٹر یا اینڈو کرائنولوجسٹ سے رابطہ کیا جانا چاہئے ۔

اگرچہ ذیابیطس کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے لیکن ذیابیطس کے شکار افراد میں خطرے کے عوامل بشمول وزن میں کمی‘ جسمانی ورزش‘ کم کیلوریز والی خوراک کا استعمال ‘ تمباکو نوشی پر قابو پا کر اسے روکا جا سکتا ہے یا اس میں تاخیر کی جا سکتی ہے۔

ذیابیطس کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے نمٹنے کیلئے الیکٹرانک‘ پرنٹ اور سوشل میڈیا‘ این جی اوز کےساتھ ساتھ حکومتی اداروں کو متحرک کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔

انسولین کی پیداوار میں اضافہ‘ اس کی قیمتوں کے تعین میں شفافیت‘ شواہد پر مبنی پالیسیاں بنانے میں نجی شعبے کے اداروں کی شمولیت اور ذیابیطس کے بڑے فورمز کی توجہ ان ممالک کی طرف مبذول کرانے کو ترجیح دی جانی چاہیے جن میں پاکستان جیسے ڈائباٹیس میلٹس (Diabetes mellitus)کی شرح زیادہ ہو۔

چینی پر مشتمل کھانے کی اشیا پر ٹیکس بڑھانے سے عوام کے مشروبات اور بیکری کی اشیا کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔

کولڈا سٹوریج سمیت انسولین کی گھریلو مینوفیکچرنگ اور سپلائی چین مینجمنٹ کو بہتر بنانے سے مریضوں کی طرف سے استعمال کی جانے والی مصنوعات کے معیار کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

عوام کو صحتمند غذائی عادات اور ورزش‘ باقاعدگی سے اسکریننگ کی اہمیت اور ڈی ایم کی ابتدائی علامات کے بارے میں تعلیم دی جانی چاہیے۔

ذیا بیطس کی نئی شروع ہونے والے ٹائپ 2 DM کے راستے کو تلاش کرنے کیلئے کرونا سے متاثرہ مریضوں کی گہری پیروی کی جانی چاہیے۔ صرف ایک مضبوط کثیر الشعبہ نقطہ نظر کے ذریعے ہی ہم اس تباہی کا مقابلہ کرنے کی امید کر سکتے ہیں۔

ذیابیطس کے شکار لاکھوں افراد کو گھر‘ کام اور اسکول میں روزانہ چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں لچکدار‘ منظم اور ذمہ دار ہونا چاہیے‘ جو ان کی جسمانی اور ذہنی تندرستی دونوں کو متاثر کرتے ہیں۔ آئیے ذیابیطس کے عالمی دن کے موقع پرذیابیطس کے مریضوں کی بہتر زندگی کیلئے تبدیلی کی جدوجہد کے آغاز کا عزم کریں کہ اگر ٹھان لیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں ۔