لندن۔معروف برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ 76 برس کی عمر میں انتقال کر گئے، انہیں البرٹ آئن اسٹائن کے بعد صدی کا دوسرا بڑا سائنس دان تصور کیا جاتا ہے۔برطانوی میڈیا کے مطابق اسٹیفن ہاکنگ کے بچوں لوسی، روبرٹ اور ٹم نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ہم بہت غمزدہ ہیں کہ آج ہمارے والد جہاںِ فانی سے کوچ کرگئے۔انہوں نے کہا کہ وہ ایک عظیم سائنسدان اور غیرمعمولی شخصیت کے حامل تھے جن کا کام برسوں تک مثالی رہے گا۔واضح رہے کہ اسٹیفن ہاکنگ طویل عرصے تک موت سے لڑتے رہے انہیں موٹورنیورون بیماری لاحق تھی جس کے باعث ان کا پورا جسم مفلوج ہو گیا تھا لیکن وہ دماغی اعتبار سے بھرپور صحت مند تھے۔انہیں بے جان کردینے والا مرض 21 سال کی عمر میں اس وقت لگا جب وہ کیمبرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔
اسٹیفن ہاکنگ کو 1988 میں اس وقت مقبولیت ملی جب ان کی تصنیف وقت کی مختصر تاریخ منظر عام پر آئی اور دنیا بھر میں 1 کروڑ سے زائد کتابیں خریدی گئی۔بعدازاں انہوں نے دنیا کے وجود میں آنے سے متعلق سوالات پر مشتمل بلیک ہولز اور بگ بینگ تھیوری (علم الکائنات میں انفجارِعظیم) کے تصور میں جدید رحجانات پیدا کیے۔اسٹیفن ہاکنگ اپنی کمال صلاحیتوں کے باعث گزشتہ 30 برسوں سے کیمبرج یونیورسٹی میں علم الحساب کے معلم رہے اور 2009 میں ریٹارئرڈ ہو کر تھیوریٹکل کاسمولوجی سینٹر کے ڈائریکٹر برائے تحقیق مقرر ہوئے۔
70 کی دہائی میں اسٹیفن ہاکنگ کا جسم ان کا ساتھ چھوڑ گیا اور وہ وئیل چیئرپرآگئے اور اپنی تمام کامیابیوں کا سفر وئیل چیئر پر بیٹھ کر ہی طے کیا۔اسٹیفن ہاکنگ اپنی بات کہنے کے لیے سیدھے ہاتھ گال کو معمولی سی حرکت دیتے تھے اور انہیں بات سمجھنے کے لیے کمپیوٹر کی مدد حاصل رہتی تھی۔ماہرین نے اسٹیفن ہاکنگ کے چشمے پر ایک سینسر نصب کیا اور اسے دائیں گال کی حرکت سے جوڑ دیا تھا، اسٹیفن دائیں گال کو حرکت دیتے اور مطلوبہ حرف کمپیوٹر اسکرین پر الگ سے نمایاں ہوجاتا۔اسٹیفن ہاکنگ کو ایک جملہ ترتیب دینے میں تقریبا 10 منٹ لگتے تھے۔ان کی آخری تصنیف دی گرینڈ ڈیزائن 2010 میں شائع ہوئی۔
246