کراچی: پاکستان میں پہلی بارکراچی کے نوجوان نے تھری ڈی آرکیٹکٹ پراجیکٹ تیار کرلیا جس کی مدد سے بلڈر اور ڈیولپرز کمپیوٹر پرتھری ڈی ماڈلز کی مدد سے مستقبل میں اپنے منصوبوں کی حتمی شکل دیکھ سکتے ہیں۔
کراچی میں موجود نجی جامعہ سرسید یونیورسٹی کے فارغ التحصیل باصلاحیت نوجوان مدثر اکبر خان نے نوکری کے جھنجھٹ میں پڑنے کے بجائے تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے تھری ڈی آرکیٹکٹ پراجیکٹ تیارکرلیا، جس کی مدد سے بلڈر اور ڈیولپرز کمپیوٹر پر تھری ڈی ماڈلز کی مدد سے مستقبل میں اپنے منصوبوں کی حتمی اور قریب قریب حقیقی شکل دیکھ سکتے ہیں جسے iorena کا نام دیا گیا ہے۔
پاکستان کے علاوہ مڈل ایسٹ اور خلیجی ریاستوں کے بڑے بلڈرزبھی اس پراجیکٹ میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ایک آرکیٹکٹ سافٹ ویئرہے جس میں تعمیراتی منصوبوں کو حقیقت سے قریب تردیکھا جاسکتا ہے لیکن اس کے استعمال کو اس حد تک آسان بنایا گیا ہے کہ بلڈراورڈیولپرز کے علاوہ فیصلہ کرنے والی شخصیات خود اپنے موبائل فون یا کمپیوٹر کی اسکرین پر دیواروں کے رنگ اور ٹائلز تک تبدیل کرکے دیکھ سکتے ہیں۔
یہ پراجیکٹ بلڈرزاورڈیولپرز کے علاوہ بڑے گھر تعمیر کرنے والے افراد کے لیے بھی فیصلہ کو آسان بنانے اور سرمائے کی بچت اور بہترین انتخاب میں مدد دے گا۔ پاکستان میں یہ سافٹ ویئر پہلی مرتبہ متعارف کرایا گیا اور کراچی سپر ہائی وے میں زیر تعمیر ڈی ایچ اے میڈیکل سینٹر کی تعمیر سے قبل اس پراجیکٹ کے ذریعے حقیقت سے قریب لاکر تھری ڈی اینگل کے لحاظ سے پرکھا گیا۔
تھری ڈی آرکیٹکٹ پراجیکٹ کی کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقدہ مومینٹم کانفرنس میں نمائش کی گئی جس میں ملکی و غیرملکی ماہرین نے تعریف کی۔ اس سہولت کو موثر بنانے کے لیے ٹائلز اور رنگوں کی لائبریری تیار کی جارہی ہے ملک میں پینٹ اور ٹائلز بنانے والی معروف کمپنیاں اپنے ڈیزائن اور نمونے اس لائبریری کا حصہ بنارہی ہیں اگلے مرحلے میں فرنیچر، کارپٹ، آرائشی اشیا، پودوں اور گھریلو برقی آلات کا بھی اضافہ کیا جائے گا۔
اس طرح گھر یا بنگلہ تعمیر کرنے والے افراد منصوبے کو حقیقت کا روپ دینے سے قبل ہی اپنی اسکرین پر دیکھ سکیں گے۔ اس پراجیکٹ کے تحت 500 گز کے پراجیکٹ کے تھری ڈی ماڈل کی تیاری کی لاگت 3 لاکھ روپے آرہی ہے اس طرح 120 گز کے گھر تعمیر کرنے والے افراد 1.5 لاکھ روپے خرچ کرکے تعمیر سے قبل ہی حقیقت سے قریب تر نظارہ کرسکیں گے۔
پاکستان کے تمام بڑے بلڈرز اس پراجیکٹ میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں تاہم وہ نظر آنے والے مناظر حقیقت سے بہت قریب دکھانا چاہتے ہیں جس کے لیے پراجیکٹ پر مزید کام جاری ہے جس کے بعد یہ پراجیکٹ ممکنہ طور پر پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ایک اہم مقام حاصل کرلے گا۔