615

پاکستان میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں امیجنگ کیپسول استعمال کیا جائے گا

کراچی: آغا خان یونیورسٹی اسپتال نے امریکی ماہرین کے تعاون سے پاکستان میں پہلی بار غذائی قلت کے شکار بچوں کے علاج کے لیے اندورنی جسمانی امیجنگ پر کام شروع کردیا ہے جس کے تحت بچوں کے جسموں میں ایک چھوٹا کیپسول داخل کرکے ان کے معدے اور آنتوں کا جائزہ لے کر ان کا علاج کرنا ممکن ہوسکے گا۔

اس ضمن میں آغا خان یونیورسٹی نے ہارورڈ میڈیکل اسکول سے ملحق  میسا چیوسیٹس جنرل اسپتال سے ایک معاہدہ کیا ہے۔ اس کے تحت ایک جسم کے اندرونی امیجنگ کے لیے مریض بچے میں ایک کم خرچ اور غیرتکلیف دہ کیپسول اتارا جاتا ہے جس سے بچے کے معدے اور اندرونی آنتوں کا جائزہ لے کر اس میں غذائی قلت اور اس کے اثرات کاجائزہ لیا جاتا ہے۔

امریکا سے باہر پاکستان میں پہلی مرتبہ اس آلے کی آزمائش کی جائے گی جو مریض کے آنتوں اور معدے کے پورے نظام کی بہت تفصیلی تصاویر بناتا ہے۔ دیکھنے میں یہ ایک شفاف ایل ای ڈی جیسا دکھائی دیتا ہے۔ اس میں ہائی ریزولوشن انفراریڈ سسٹم ہے جو انسانی معدے، آنتوں اور اس کے نظام کی باریکی سے تصاویر لیتا رہتا ہے۔

آغا خان یونیورسٹی ، اسٹڈی آف انووائرمینٹل اینٹروپیتھی اینڈ میل نیوٹریشن ( ایس ای ای ایم) پروگرام کے تحت یہ کام کرے گی جسے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے مالی تعاون فراہم کیا گیا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ متاثرہ بچوں کی آنتوں اور معدے میں پائے جانے والے قدرتی  بیکٹیریا اور جراثیم بڑی حد تک بدل جاتے ہیں ۔ اس سے ان کی نشوونما رک جاتی ہے، کھانا ان کے جسم کو نہیں لگتا اور ان کا امنیاتی نظام بھی کمزور ہوکر بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ جسم کے اندر بیکٹیریا کو دیکھتے ہوئے بچوں کے علاج میں مدد ملے گی کیونکہ اس سے جسم کا اندرونی تصویری احوال سامنے آجائے گا جس سے ڈاکٹر مرض سمجھ سکیں گے۔

اس کیپسول کو میسا چیوسیٹس جنرل اسپتال کے پروفیسر گیری ٹیرنی نے ایجاد کیا  جو اینڈوسکوپی کے متبادل ایک نظام ہے اور ہاضمے کی کئی بیماریوں کی شناخت اور علاج میں مدد کرتا ہے۔ اینڈوسکوپی کا عمل اسپتال کے خاص انتظامات کے تحت ہی ممکن ہوتا ہے جس میں مریض کو غنودگی کی دوا دی جاتی ہے اور اس کے لیے انتہائی تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی ضرورت ہوتی ہے۔

تاہم کیمرا کیپسول کو حلق سے اتارنے کے لیے مریض کو بے ہوش نہیں کیا جاتا اور بہت کم خرچ میں عام ڈاکٹر کسی بھی اسپتال میں اسے استعمال کرسکتے ہیں۔

اس موقع پر آغاخان یونیورسٹی میں بچوں کے ماہر ڈاکٹر اسد علی نے کہا کہ یہ ٹیکنالوجی ایک کم خرچ، کم تکلیف دہ اور نیا طریقہ ہے جو بچوں میں غذائی قلت اور آنتوں کے امراض کو سمجھنے میں مدد کرے گا، ہم ڈاکٹر ٹیرنے اور ان کے ساتھیوں سے مل کر اس ٹیکنالوجی کے مزید استعمال پر غور کررہے ہیں۔

اس موقع پر ڈاکٹر گیری ٹیرنی نے کہا کہ وہ آغا خان یونیورسٹی کے اسٹاف کی صلاحیت سے بہت متاثر ہوئے ہیں ۔ انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ان کا یہ آلہ پاکستانی بچوں میں غذائی قلت کے خاتمے میں اہم کردار اداکرے گا جو ملک کے لیے ایک اہم چیلنج بن چکا ہے۔

پروفیسر گیری ہارورڈ میڈیکل اسکول میں پیتھالوجی کے ماہری ہیں جو میڈیکل امیجنگ پر بھی کام کرتے ہیں۔ انہوں نے اینڈوسکوپی کے عمل کو آسان اور کم قیمت بنانے کے لیے یہ کیپسول ایجاد کیا ہے۔