52

بریک اپ پر 10 سال قید کی سزا، نئے بھارتی قانون نے جوڑوں میں تشویش پھیلا دی

بھارت میں نئے بھارتی قانون ”بھارتیہ نیائے سنہتا“ (بی این ایس) نے یکم جولائی سے 164 سال پرانے تعزیرات ہند کی جگہ لے لی ہے، یہ نئے قوانین بھارت بھر میں مختلف وجوہات پر زیر بحث ہیں، لیکن ان میں ایک قانون ایسا ہے جس نے جوڑوں میں تشویش پھیلا دی ہے۔

بھارتیہ نیائے سنہتا کے سیکشن 69 میں کہا گیا ہے کہ اگر شادی کا وعدہ کرکے جنسی تعلق قائم کیا جاتا ہے اور پھر دھوکے سے رشتہ ختم کرلیا جاتا ہے تو اس پر 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

قانون میں کہا گیا ہے کہ ’جو شخص کسی عورت سے دھوکہ دہی سے یا شادی کرنے کا وعدہ کرکے اسے پورا کرنے کے ارادے کے بغیر، اس کے ساتھ مباشرت کرتا ہے، تو ایسا جنسی تعلق عصمت دری کے جرم کے مترادف نہیں ہے، لیکن اسے سزا دی جائے گی جس کی مدت دس سال تک ہو سکتی ہے اور اس پر جرمانہ بھی ہوگا، یا دونوں میں سے کوئی ایک سزا ہوگی‘۔

بھارتی قانون کی ”دفعہ 69“ نئی اور بے مثال ہے کیونکہ تعزیرات ہند میں حقائق کو چھپا کر یا دھوکہ دہی سے جنسی تعلق قائم کرنے کا کوئی خاص بندوبست نہیں تھا۔

اس سے قبل، اس طرح کے مقدمات تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 90 کے تحت چلائے گئے تھے۔

ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جب خواتین نے رشتہ ختم ہونے پر لڑکے پر عصمت دری کا الزام لگا دیا، لیکن سیکشن 69 کے تحت خواتین جھوٹے وعدوں پر جنسی تعلقات کے لیے رضامندی کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔

سیکشن 69، ایک طرح سے بریک اپ کو غیر قانون کے دائرے میں لاتا ہے، اور اگر رشتہ شادی پر ختم نہیں ہوتا، تو اس سے مردوں کو ہراساں کیے جانے کا خطرہ پیدا ہوا ہے۔

دفعہ 69 شناخت کو چھپا کر یا حقائق کو دبا کر کی جانے والی شادیوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ یہ ان صورتوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جہاں یہ شکایت ہو کہ شادیاں، خاص طور پر بین المذاہب شادیاں، جن میں مرد نے اپنی شناخت چھپا رکھی ہو۔

سیکشن میں دھوکہ دہی کی وضاحت ’ملازم، یا ملازمت یا ترقی کا جھوٹا وعدہ، یا شناخت کو چھپا کر شادی کرنا‘ کے طور پر کی گئی ہے۔

سیکشن 69 میں ”شادی کرنے کا وعدہ“ تعلقات میں لوگوں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے لیے ایک پنڈورا باکس کھولتا ہے۔

دفعہ 69 کے ”شادی کرنے کے وعدے“ کے پہلو نے لوگوں کو اس فکر میں مبتلا کر دیا ہے کہ رشتوں کی خرابی کے نتیجے میں مردوں کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جائے گا۔

وکلا کا کہنا ہے کہ اگر رشتہ دیگر وجوہات کی بنا پر ختم ہوتا ہے تو ”دھوکہ دینے کا ارادہ“ قائم کیا جا سکتا ہے، لیکن اس سے مرد ساتھی کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بی این ایس کی دفعہ 69 قابل اعتماد ثبوت کے بغیر مردوں کو گرفتار کرنا آسان بنا سکتی ہے۔

غازی آباد سے تعلق رکھنے والے وکیل اروند سنگھ کا کہنا ہے کہ ’شادی کرنے کا ارادہ موضوعی ہے۔ کوئی کیسے ثابت کر سکتا ہے کہ اگر شادی نہیں ہوتی تو اس کا حقیقی ارادہ تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا، ’تعلقات کئی وجوہات کی بنا پر ختم ہو سکتے ہیں، یہاں تک کہ جب شادی کرنے کا ارادہ بھی ہو۔ کسی کو ثابت کرنا کہ شادی کرنے کا ارادہ ہے لیکن کسی بھی وجہ سے شادی نہیں ہوسکی، یہ مشکل ہوگا‘۔

اس طرح وکلا کو اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں مہینوں یا سال لگ سکتے ہیں، اور اس سے کسی شخص اور اس کی ساکھ اور ان کی مجموعی زندگی کو بہت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔

اروند سنگھ نے مزید کہا کہ ’اگرچہ ہم نہیں جانتے کہ ایسے معاملات کیسے نکلیں گے، ایسی چیز کو ثابت کرنے میں ناکامی کے سنگین نتائج ہوں گے۔ ایک آدمی 10 سال تک جیل میں رہ سکتا ہے۔ اس کی پوری زندگی متاثر ہو سکتی ہے‘۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ایک خاتون کے صرف الفاظ سے اس کے سابق پارٹنر کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ بی این ایس کے سیکشن 69 کے مسائل یہیں ختم نہیں ہوتے۔ پولیس کی جانب سے ابتدائی تحقیقات کے بعد گرفتاری عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ تاہم، عدالت میں شواہد کے ساتھ واٹر ٹائٹ کیس بنانا بالکل مختلف معاملہ ہوگا۔

ایک سینئیر پولیس اہلکار کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’عدالت شواہد پر کام کرتی ہے۔ ہمیں حالاتی ثبوت پیش کرنے ہوں گے کہ شادی کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، اور جنسی تعلق اس وعدے یا بہانے سے قائم کیا گیا تھا، یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہے‘۔

یہاں، ٹیکسٹ پیغامات، کال ریکارڈنگز اور تصاویر کو وعدہ خلافی کے ثبوت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، یہ اندازہ لگانا اب بھی مشکل ہو سکتا ہے کہ ایک جنسی تعلق شادی کے وعدے کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا۔

یہ شق غیر منصفانہ گرفتاریوں، عدالتی مقدمات کے سالوں اور ایک آدمی کی زندگی کے کئی پہلوؤں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

ایک طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 69 کو عملی جامہ پہنانے کا مسئلہ درپیش ہے، تو دوسری جانب رشتوں میں جڑے لوگ اس بارے میں زیادہ پریشان ہیں کہ یہ قانون کیا کچھ کرسکتا ہے۔

ستائیس سالہ سجاتا نامی خاتون کہتی ہیں کہ ’ایک عورت جنسی تعلق کے لیے رضامندی دیتے وقت جانتی ہے کہ اس بات کا امکان ہے رشتہ ٹوٹ سکتا ہے۔ اگر دو افراد ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں شادی یا شادی کے وعدے کی بھی ضرورت نہیں ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’قید کے خوف کی وجہ سے لوگ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مباشرت کرنے کے بارے میں فکر مند ہو سکتے ہیں۔‘

کئی وجوہات کی بنا پر تعلقات ختم ہو جاتے ہیں اور اب مرد خوفزدہ ہیں کہ انہیں اپنے پارٹنرز سے ٹوٹنے کے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایک 26 سالہ نوجان نے کہا کہ ’کیا ہوگا اگر میری کچھ خاندانی وجوہات کی وجہ سے، میں اس سے شادی نہیں کر سکتا۔ یا وہ مجھ سے شادی نہیں کر سکتی، اور پھر وہ میرے خلاف شکایت درج کراتی ہے۔ میں اپنے آپ کو کیسے بچاؤں گا‘۔

نئی بھارتیہ نیا سنہتا کی دفعہ 69 کو لے کر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ صرف وقت ہی بتائے گا کہ قانون کیسے نافذ ہوتا ہے اور کیا مردوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔