سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بہت زیادہ وقت گزارنے سے نوجوانوں میں ڈپریشن سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
گزشتہ چند دہائیوں کے دوران نوجوانوں میں ڈپریشن کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ مستقبل قریب میں حالات بہتر ہوسکیں گے۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے نوجوانوں میں ڈپریشن کا خطرہ بڑھتا ہے۔
جونز ہوپکنز چلڈرنز سینٹر کی تحقیق میں سوشل میڈیا کے استعمال، ڈپریشن اور نوجوانوں کے دیگر رویوں کے درمیان تعلق کی جانچ پڑتال کی گئی۔
اس تحقیق میں 376 نوجوانوں کو شامل کیا گیا تھا جن سے مئی 2021 سے جنوری 2022 کے دوران 3 آن لائن سوالنامے بھروائے گئے۔
ہر بار نوجوانوں سے ڈپریشن کی علامات بھی رپورٹ کرنے کا کہا گیا جبکہ سوشل میڈیا پر گزارے جانے والے وقت، جسمانی سرگرمیوں اور دیگر عناصر کے بارے میں بھی تفصیلات جمع کی گئیں۔
محققین نے دریافت کیا کہ تحقیق میں شامل بیشتر نوجوانوں کو ڈپریشن کی علامات کا سامنا تھا۔
تحقیق کے مطابق جو نوجوان سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارتے ہیں، ان میں ڈپریشن سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اسی طرح نوجوان جتنے زیادہ ڈپریشن کے شکار ہوتے ہیں، وہ سوشل میڈیا کا استعمال بھی زیادہ کرتے ہیں۔
البتہ یہ بھی دریافت کیا گیا کہ سوشل میڈیا کے استعمال سے طویل المعیاد بنیادوں پر ڈپریشن کی علامات کی شدت میں کمی یا اضافہ نہیں ہوتا۔
محققین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ اگر کوئی فرد ڈپریشن سے متاثر ہے تو وہ اپنا زیادہ سوشل میڈیا پر گزارنے کو ترجیح دیتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت گزارنے اور ڈپریشن کی سنگین علامات کے درمیان تعلق موجود ہے۔
محققین نے بتایا کہ جو افراد ڈپریشن کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں، انہیں سوشل میڈیا پر گزارے جانے والے وقت کے حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چار دیواری کے اندر وقت گزارنے، ورزش نہ کرنے اور رات گئے جاگنے جیسی عادات کے اپنے نقصانات ہیں اور ان سے ڈپریشن کا خطرہ بڑھتا ہے۔
محققین کے مطابق نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال اور ڈپریشن کے درمیان تعلق موجود ہے مگر ابھی ایسے شواہد موجود نہیں جن سے ثابت ہوتا ہو کہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وقت گزارنے سے ڈپریشن کی شدت میں طویل المعیاد بنیادوں پر اضافہ ہوتا ہو۔
اس تحقیق کے نتائج انٹرنیشنل جرنل آف مینٹل ہیلتھ اینڈ ایڈکشن میں شائع ہوئے۔