86

سگریٹ سے ملک میں سالانہ ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد کی موت کا انکشاف

پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اثر رسوخ کے باعث سگریٹ کی صنعت پر ٹیکس کا نفاذ نہ ہونے سے ملک میں سالانہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

تمباکو کنٹرول پر ایک بین الاقوامی واچ ڈاگ، گلوبل سینٹر فار گڈ گورننس ان ٹوبیکو کنٹرول (GGTC) نے 2023 کی اپنی تازہ ترین ریسرچ میں پاکستان کو ایک ایسے انڈیکس میں شامل کیا ہے جہاں تمباکو کی صنعت حکومتوں پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ایک عالمی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملٹی نیشنل تمباکو بنانے والی کمپنیوں کے اثر و رسوخ کو روکنے میں پاکستان کی کارکردگی غیر تسلی بخش پائی گئی ہے جس کے نتیجے میں ملک میں سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔

واچ ڈاگ کے مطابق صنعت کے اثر و رسوخ کو روکنے، شفافیت کو یقینی بنانے اور ملٹی نیشنل تمباکو کمپنیوں کے ساتھ مفادات کے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے اقدامات اپنانے میں پاکستان کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی ہے۔پاکستان ٹوبیکو کمپنی اور برٹش امریکن ٹوبیکو کے ناموں کا ذکر کرتے ہوئے، جی جی ٹی سی نے کہا کہ 2021 میں پاکستان میں 163,672 اموات بنیادی طور پر تمباکو کے ان دوبڑے سگریٹ بنانے والی کمپنیون کی مختلف پروڈکٹس سے ہوئیں۔پاکستان میں تمباکو کمپنیوں کو نام نہاد سماجی طور پر ذمہ دارانہ سرگرمیوں کے ذریعے اپنی تشہیر کرنے، تقریبات، سرگرمیوں یا افراد کی کفالت کے ذریعے اپنی مصنوعات کی تشہیر کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

پاکستان میں تمباکو پر ٹیکس خوردہ قیمت کے فیصد کے طور پر 61 فیصد ہے جبکہ عالمی معیار 70 فیصد ہے۔دریں اثنا، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی ٹیکنیکل اسسٹنس رپورٹ بعنوان 'پاکستان ٹیکس پالیسی“ میں پاکستان میں سگریٹ کی کھپت پر فروری میں جاری ہونے والے ڈائیگناسٹک اینڈ ریفارم آپشنز نے پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سگریٹ جیسی غیر ضروری اشیاء پر ٹیکس بڑھا کر اپنے ٹیکس سسٹم کو چینج کرے اور سگریٹ پر یکساں ٹیکس لاگو کرے چاہے ان کا نیشنل یا ملٹی نیشنل برانڈ کوئی بھی ہو۔پاکستان اس وقت مالی سال 21 کے دوران محصولات میں جی ڈی پی کا صرف 0.5 فیصد حصہ ڈال رہا ہے جبکہ سگریٹ ٹیکس نے جی ڈی پی میں 0.19 فیصد حصہ ڈالا ہے، موجودہ سطح پر جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر، اور حالیہ برسوں میں نسبتاً مستحکم رہا ہے۔

ورلڈ بینک نے بھی اپنی رپورٹ پاکستان ڈویلپمنٹ اپڈیٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ 505.26 بلین روپے کے جی ڈی پی کے 0.4 فیصد کا نمایاں ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے جو کہ پریمیم سگریٹ پر موجودہ شرح16.50 فی سگریٹ لاگو کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔دوسری جانب لندن کے امپیریل کالج کی جانب سے ’ٹوبیکو اینڈ گلوبل انوائرمنٹ فٹ پرنٹ‘ کے عنوان سے کی گئی ایک حالیہ تحقیق میں پاکستان کو دنیا کے 90 فیصد سگریٹ پیدا کرنے والے 9 غریب ممالک میں شامل کیا گیا ہے۔ریسرچ کے مطابق پسماندہ ممالک میں تمباکو کی پیداوار پالیسی سازوں کے لیے تشویش کا باعث ہے کیونکہ تمباکو پیدا کرنے والے ٹاپ 10 ممالک میں سے پاکستان سمیت نو ممالک ترقی پذیر، کم آمدنی اور غذائی خسارے والے ممالک کی کیٹگری میں شامل ہیں۔