بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ سرطان (کینسر) ہے اور دنیا بھر میں ہر سال 3 لاکھ سے زائد بچے سرطان یعنی کینسر کی مختلف اقسام کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بچوں کو لاحق ہونے والے سرطان کی اقسام بڑوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ بچے عام طور پر لیوکیمیا، دماغ اور حرام مغز کے ٹیومر، عصبی بافتوں اورلمفی نسیج کے سرطان، آنکھ اورہڈیوں کے سرطان میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بعض صورتوں میں بچے سرطان کی ان اقسام کا بھی شکار ہوجاتے ہیں جوعام طورپربالغ افراد میں دیکھی جاتی ہیں۔
لیوکیمیا بچوں میں سرطان کی سب سے عام قسم ہے۔ اس سے مراد ہڈیوں کے گودے اور خون کا کینسر ہے۔ کینسر کے مریض 30 فی صد بچے اس مہلک قسم میں مبتلا ہوتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر دماغ اور حرام مغز کا ٹیومر ہے۔ کینسر کے 26 فی صد مریض بچے اس کا شکار ہوتے ہیں۔ برین ٹیومر کی بہت سی اقسام ہیں اور اسی مناسبت سے ہر ایک کا علاج جُدا جُدا ہے۔
سرطان کی ابتدا اس وقت ہوتی ہے جب خلیوں کی نمو قابو سے باہر ہوجائے۔ جسم کے کسی بھی حصے کے خلیے کینسر کی شکل اختیار کرسکتے ہیں اور دوسرے حصوں میں پھیل سکتے ہیں۔ بچوں کو لاحق ہونے والے کینسر کی اقسام اکثر و بیشتر بڑوں کے کینسر سے مختلف ہوتی ہیں۔ بالغ افراد میں کینسر کا گہرا تعلق ان کے طرز زندگی اور ماحولیاتی عوامل سے ہوتا ہے، مگر بچوں کے معاملے میں صورت حال برعکس ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں موروثی طور پر بچوں کو اس مہلک مرض کی منتقلی کے کیسز بھی بہت کم ہوتے ہیں۔
تمباکو نوشی بالغ افراد میں کینسر کا اہم سبب ہے مگر بچے ظاہر ہے کہ اس سے دور رہتے ہیں۔ البتہ کچھ ماحولیاتی عوامل جیسے تابکاری وغیرہ کا بچوں میں کینسر سے تعلق پایا گیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کینسر سے بچوں کی حفاظت ناممکن حد تک مشکل ہے، کیوں کہ اس کا علم عموماً اس وقت ہوتا ہے جب یہ مرض جڑ پکڑ چکا ہوتا ہے۔ میڈیکل سائنس ہنوز کینسر کی حتمی وجوہ کا تعین نہیں کرسکی، چناںچہ اس سے بچاؤ کے لیے مؤثر احتیاطی تدابیر بھی اختیار نہیں کی جاسکتیں۔
بچوں میں کینسر کی تشخیص ایک مشکل امر ہے کیوں کہ اس کی ابتدائی علامات کئی دوسرے عام امراض کی علامات سے مشابہت رکھتی ہیں۔ بہرحال اگر بچے کے جسم میں کہیں غیرمعمولی اُبھار یا گلٹی اور سوجن نظر آئے، رنگت زرد پڑتی جارہی ہو، جسم پر بآسانی خراشیں پڑجاتی ہوں، جسم کے کسی حصے میں مستقل درد رہتا ہو، چال میں لنگڑاہٹ آگئی ہو، بخار نہ اتر رہا ہو، سر درد اور متلی کی شکایت ہو، اچانک ضعف بصارت کا شکار ہوجائے، وزن اچانک کم ہونے لگے تو پھر فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
کینسر ہر خطے میں رہنے والے بچوں کو لاحق ہوسکتا ہے۔ تیسری دنیا میں اس بارے میں جامع اعدادو شمار دستیاب نہیں، البتہ ترقی یافتہ ممالک میں ادارے اس ضمن میں ریکارڈ مرتب کرتے ہیں۔ امریکن کینسر سوسائٹی کے مطابق گذشتہ برس 10270 بچوں میں سرطان کی تشخیص ہوئی۔ یہ تعداد اگرچہ سرطان کے مجموعی کیسز کا ایک فی صد سے بھی کم ہے لیکن چند دہائیوں سے امریکی بچوں کے کینسر میں مبتلا ہونے کی شرح بڑھ رہی ہے۔ حادثات کے بعد سرطان 15 سال سے کم عمر امریکی بچوں کی موت کا دوسرا بڑا سبب ہے۔
سرطان کی حتمی وجوہ کا ہنوز تعین نہ ہونے کے باعث اس سے بچاؤ ممکن نہیں البتہ روزافزوں ترقی کی بنیاد پر امریکا میں کینسرزدہ 80 فی صد بچوں کی اوسط زندگی میں اب پانچ سال کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں جہاں علاج معالجے کی سہولتیں ناقص ہیں، وہاں اس حوالے سے صورت حال بے حد خراب ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال 15 سال سے کم عمر 90000 بچے کینسر کی کسی نہ کسی شکل کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ان کی اکثریت کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہوتا ہے۔ بچوں کی زیادہ آبادی تیسری دنیا ہی میں ہے اس لیے شرح اموات بھی یہاں زیادہ ہے، مگر کینسر میں مبتلا بچوں کی اوسط زندگی ترقی یافتہ ممالک کی نسبت نمایاں طور پر کم ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ بچوں کو لاحق ہونے والے سرطان کی تمام اقسام قابل علاج ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کینسر کا شکار 70 فی صد سے زائد بچے صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس ترقی پذیر ممالک میں صحت یاب ہونے والے بچوں کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں سرطان کے علاج کی بہترین سہولتیں عوام کو میسر ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں سرکاری سطح پر سرطان کے علاج کی سہولتیں ناپید ہیں۔ عالمی اور نجی ادارے اور تنظیمیں اس ضمن میں کام کررہی ہیں مگر ان کا دائرۂ کار محدود ہے۔
دوسری بات یہ کہ خاص طور سے براعظم افریقا کے ممالک میں دورافتادہ علاقوں میں صورت حال انتہائی خراب ہے جہاں ناخواندگی کے باعث لوگوں میں شعور نہیں اور وہ علاج و معالجے کے لیے اسپتالوں کا رُخ کرنے سے کتراتے ہیں۔ علاوہ ازیں اسپتالوں کی تعداد بھی کم ہے اور کینسر کے علاج کی سہولیات برائے نام ہیں۔ترقی پذیر دنیا کے سرطان میں مبتلا بچوں کے لیے ایسی حکمت عملیاں وضع کرنی ناگزیر ہیں جنھیں بروئے کار لانے سے انھیں جدید اور معیاری علاج کی سہولتیں میسر آسکیں۔