اوٹاوا: اسرائیل کو سالانہ اربوں ڈالر کا فوجی ساز و سامان اسرائیل بھیجنے والے کینیڈا نے غزہ پر جارحیت کے بعد سے اس میں بتدریج کمی لاتے ہوئے اب ہتھیاروں کی ترسیل مکمل طور پر روکنے کا اعلان کیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنے والے 10 بڑے ممالک میں کینیڈا سرفہرست ملک رہا ہے۔ 2022 میں 21 ملین ڈالر مالیت کا فوجی سامان اسرائیل کوبھیجا گیا جب کہ 2021 میں 26 ملین ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔
تاہم اب کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیا جولی نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل روکنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ اسرائیل کو ایسا کوئی سامان نہیں بھیج سکتے جس کے فوجی استعمال کا امکان ہو۔
کینیڈا کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 8 جنوری سے حکومت نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد کے نئے اجازت ناموں کی منظوری نہیں دی اس لیے اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل بند رہے گی۔
تاہم بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 8 جنوری سے پہلے منظور شدہ اجازت ناموں پر عمل کیا جائے گا کیوں کہ انہیں منسوخ کرنے سے کینیڈا اور اس کے اتحادیوں (امریکا، نیٹو، فائیو آئیز انٹیلی جنس اتحاد) کے ساتھ تعلقات میں خرابی کا خدشہ ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ کاٹز نے کینیڈا کے اس فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہتھیاروں کی ترسیل کی بندش کا عمل حماس کے دہشت گردوں کے خلاف اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کو مجروح کرتا ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ تاریخ کینیڈا کے اس اقدام کا سختی سے مواخذہ کرے گی۔
دوسری جانب امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے کینیڈا کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ غزہ میں انسانی تباہی کو دیکھتے ہوئے، جس میں وسیع پیمانے پر اور بڑھتی ہوئی فاقہ کشی بھی شامل ہے۔ امریکا کو اسرائیلی وزیراعظم کی جنگی مشن کو نکیل ڈالنے کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی کے معاملے نے دنیا کے متعدد ممالک میں قانونی کارروائیوں کو جنم دیا ہے۔ کینیڈا میں، وکلاء اور فلسطینی نژاد شہریوں کے ایک اتحاد نے مارچ کے اوائل میں حکومت کے خلاف اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات معطل کرنے کے لیے شکایت درج کروائی تھی۔