ڈائرکٹر توسیعی پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات (ای پی آئی) خیبرپختونخوا ڈاکٹر محمد عارف خان نے کہا ہے کہ خناق ایک جان لیوا بیماری ہے، جس کے اثرات گلے کی سوزش کی صورت میں نمودار ہوتے ہیں۔اس بیماری میں گلے، ناک اور کان میں ایک خاص قسم کی جالی پیدا ہوتی ہے جو کہ زہر بناتی ہیں۔
یہ زہر بدن کے اہم اعضاء جیسا کہ دل، پھپھڑے، گردے اور اعصاب کو متاثر کرتا ہے جس کی وجہ سے بچوں کی موت واقع ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ رواں سال خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں خناق کے 259 مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 80 فیصد کیسز میں 7 سال سے زائد عمر کے افراد، متاثر ہوئے جن میں 50 اور 60 سال کی عمر کے افراد بھی شامل ہیں۔سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہونے والے اضلاع میں پشاور، کوہاٹ، چارسدہ، خیبر، بنوں، مردان، نوشہرہ، کرک، ڈی آئی خان، مالاکنڈ، دیر اپر، بٹگرام، صوابی، مانسہرہ، جنوبی وزیرستان، شانگلہ، لکی مروت ٹانک، بونیر، کرم لوئر، کوہستان لوئر، چترال، باجوڑ، تور غر، سوات، مہمند، ہنگو، اور دیر لوئر شامل ہیں۔
ڈاکٹر محمد عارف خان نے خناق کی اہم علامات پر روشنی ڈالتے ہوئے اگاہ کیا ہے کہ یہ گلے، ناک اور کانوں میں مخصوص جالی کی نشوونما کا آغاز کرتا ہے، جس کے نتیجے میں زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ زہریلے مادے دل، پھیپھڑوں، جگر اور اعصاب جیسے اہم اعضاء پر تباہی مچا سکتے ہیں، جو ممکنہ طور پر بچوں میں اموات کا باعث بن سکتے ہیں۔
اس کی زیادہ متعدی بیماری کے پیش نظر، خناق ایک شخص سے دوسرے شخص میں تیزی سے پھیلتا ہے۔ ڈائریکٹر ای پی آئی نے خناق کے خلاف جنگ میں ماہرین اطفال کے اہم کردار پر بھی زور دیا ہے۔ انہوں نے ٹرانسمیشن کی رفتار کی وجہ سے ہسپتالوں میں خناق کے مریضوں کو الگ رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے والدین پر زور دیا کہ اگر ان کے بچوں میں گلے میں سوجن کی علامات ظاہر ہوں تو وہ فوری طور پر ماہرین اطفال سے طبی امداد حاصل کریں تاکہ بروقت روک تھام کو یقینی بنایا جا سکے۔
ڈاکٹر عارف نے کہا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں مشتبہ کیسز کے جواب میں، ای پی آئی کی ٹیمں متاثرہ علاقوں اور یونین کونسلوں میں جاکر تمام بچوں کو ویکسین لگاتی ہیں۔ڈائریکٹر ای پی آئی نے اگاہ کیا ہے کہ اینٹی ڈفتھیریا سیرم خناق کے مریضوں کے علاج کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، جو کہ بہت مہنگی اور نایاب دوائی ہے۔ انہوں کہا ہے کہ ای پی آئی اپنے محدود وسائل میں ابھی تک سینکڑوں کی تعداد میں مریضوں کو یہ دواہ مہیا کر چکی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ چونکہ یہ دوائی بہت ہی مہنگی اور نایاب ہے اس لیے ہم اپنی طرف سے معاون صحت کی تنظیموں اور دیگر صوبوں سے اینٹی ڈفتھیریا سیرم حاصل کرنے کے لیے درخواست کرتے ہیں تاکہ اس صوبے کے بچوں کو بچایا جا سکے۔مزید برآں، انہوں نے خدشات کا اظہار کیا کہ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں زیادہ تر مشتبہ کیسز والدین کی طرف سے اپنے بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے سے انکار کی وجہ سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد عارف خان نے والدین سے التجا کی ہے کہ جنہوں نے ابھی تک اپنے بچوں کو ویکسین نہیں لگوائی ہے وہ بلا تاخیر قریبی ویکسینیشن مراکز تک پہنچ جائیں۔ بروقت ویکسینیشن ایک سادہ لیکن گہرا موثر اقدام ہے جو بچوں کی زندگیاں بچانے اور اس مہلک بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز خیبرپختونخوا، ڈاکٹر شوکت علی نے بچوں کے لیے ویکسینیشن کورس مکمل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ویکسینیشن سے انکار کیے جانے پر خاندانوں پر خناق سے ہونے والے مالی اور نفسیاتی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔خیبر پختونخوا کے محکمہ صحت اور ای پی آئی کی ٹیمیں بروقت ویکسینیشن کے ذریعے اپنے بچوں کو خناق کے خطرات سے بچانے میں والدین کی مدد کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے والدین سے درخواست کی ہے کہ محکمہ صحت کا ساتھ دیں اور اس مرض سے اپنے بچوں کو محفوظ کریں۔