نیویارک: پوری دنیا میں جراثیم (بیکٹیریا) تبدیل ہوکر ہماری اینٹی بایوٹک دواؤں کو بھی ناکام بنارہے ہیں لیکن اب مٹی میں موجود اہم اینٹی بایوٹک جزو دریافت ہوا ہے جو بہت سخت جان بیکٹیریا تک کو تباہ کرسکتا ہے۔
نیویارک میں واقع راک فیلر یونیورسٹی میں خرد حیاتیات (مائیکروبائیالوجی) کے پروفیسر سین بریڈی نے یہ اینٹی بایوٹک دریافت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مٹی میں جہاں بھی قدم رکھیں 10 ہزار بیکٹیریا پائے جاتے ہیں جن کے متعلق ہم بہت کم جانتے ہیں لیکن مٹی میں کئی اقسام کے اینٹی بایوٹک اجزا بھی پائے جاتے ہیں۔
’نیچر مائیکروبائیالوجی‘ میں شائع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مٹی کے جس خرد نامیے کو دیکھا گیا ہے وہ میلاسیڈنز جماعت سے تعلق رکھتا ہے اور میتھی سیلین ریزسٹنٹ اسٹیفائلو کوکس آریئس (ایم آر ایس اے) جیسے ڈھیٹ بیکٹیریا کو بھی ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اچھی بات یہ ہے اس کے خلاف یہ بیکٹیریا کوئی مزاحمت بھی پیدا نہیں کرسکے ہیں۔
اس دریافت کے بارے میں بریڈی کہتے ہیں کہ نئی دریافت کی افادیت کے باوجود نئی اینٹی بایوٹک دوا فوری طور پر نہیں بن سکے گی کیونکہ اس میں بہت وقت لگ سکتا ہے۔ انسانوں کو امراض سے بچانے والی اینٹی بایوٹکس خود بیکٹیریا سے اخذ کی گئی ہیں۔ اس کی ایک مثال ٹی بی اور طاعون سے بچانے والی اینٹی بایوٹک اسٹریپٹومائی سین ہے جو بہت عرصے قبل نیوجرسی کے ایک فارم میں چھپے بیکٹیریم اسٹریپٹومائسس جرائسیس سے بنائی گئی تھی۔
پروفیسر سین بریڈی کو پورے امریکا سے لوگوں نے مٹی کے نمونے بھیجے تھے جن کی تعداد سیکڑوں میں تھی۔ انہوں نے دن رات محنت کرکے ان کے ڈی این اے دیکھے اور کلون کیے۔ وہ ایسے جین کی تلاش میں تھے جو کیلشیم پر انحصار کرنے والی اینٹی بایوٹکس سے وابستہ تھے۔ یہ بیکٹیریا کو اس وقت تباہ کرتے ہیں جب کیلشیم موجود ہوتا ہے۔
تجرباتی طور پر انہیں چوہوں کے ایسے زخموں پر آزمایا گیا ہے جہاں ایم آر ایس اے موجود تھا اور حیرت انگیز طور پر اس نے تمام زخموں کو ایم اے آر ایس اے سے پاک کردیا اور یہ عمل تین ہفتوں تک نوٹ کیا گیا۔
واضح رہے کہ اس وقت دنیا میں اینٹی بایوٹکس کا ایک بحران پیدا ہوچکا ہے اور ہماری اینٹی بایوٹک دواؤں کے سامنے جراثیم طاقتور ہوکر انہیں بے اثر بنارہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ 2050ء تک سالانہ ایک کروڑ افراد اینٹی بایوٹک سے مزاحمت والے امراض کے ہاتھوں لقمہ اجل بن جائیں گے۔