دوروز قبل پنجاب کے علاقے حافظ آباد میں دھوکے سے غریب لڑکیوں کی ریڑھ کی ہڈیوں سے گودا(سپائنل فلوئڈ) نکال کر بیچنے کا انکشاف ہوا تھاجس نے پاکستانی حکومت اور میڈیا سمیت بین الاقوامی میڈیا کوبھی جھنجھوڑ کررکھدیا تھا۔
برطانوی میڈیا کے مطابق حافظ آباد میں چند خواتین کو انہیں آگاہ کیے بغیر ان کا اسپائنل فلوئڈ(سی ایس ایف) یعنی ریڑھ کی ہڈی کاپانی نکالنے کے متعدد واقعات پیش آئے، تاہم میڈیا کےکچھ حصوں میں اسے ہڈیوں کا گودا کہا جارہا ہے لیکن لڑکیوں کے جسم سے نکالے جانے والا دراصل ہڈیوں کا گودا نہیں ہے بلکہ سیر پبرو سپائنل فلوئڈ،ریڑھ کی ہڈی کاپانی یا سیال مادہ ہے جسے سی ایس ایف بھی کہاجاتا ہے۔ یہ شفاف سیال دماغ اور حرام مغز کے اندر پایا جاتا ہے۔ عام طور پر دماغ اس مائع کے اندر تیرتارہتا ہےاور اگر یہ نہ ہوتو ہلنے جلنے کی صورت میں دماغ اورحرام مغز ہڈی سے ٹکرا کر زخمی ہوسکتے ہیں۔
دماغ کے اندر چند مخصوص حصے سی ایس ایف بناتے ہیں، ایک عام انسان کے جسم میں تقریباً ڈیڑھ سو ملی لیٹر یعنی چائے کی ایک چھوٹی پیالی جتنا سی ایس ایف ہوتا ہےاور روزانہ بار بار بنتا اور پھر خون کے ذریعے خارج ہوتا رہتا ہے۔ یہ خون سے ملتا جلتا ہے فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس کے اندر خون میں پائے جانے والے خلیے اور پروٹینز نہیں ہوتے۔
سی ایس ایف کسی بھی قسم کے جراثیم سے پاک ہوتا ہے لیکن اگر اس کے اندر جراثیم داخل ہوجائیں تو مریض سخت بیمار ہوجاتا ہےاور اگر کسی حادثے کی صورت میں سی ایس ایف خارج ہوجائے تو دماغ پچک جاتا ہے اور مریض کے سر میں سخت درد شروع ہوجاتاہے جو کھڑے ہونے کی صورت میں زیادہ شدید ہوتا ہے۔
سی ایس ایف کے ذریعےکئی دماغی بیماریوں کی تشخیص ہوسکتی ہے اس لیے ڈاکٹر حرام مغز میں انجیکشن داخل کرکے اس کا نمونہ حاصل کرتے ہیں اس عمل کو ’’لمبر پنکچر‘‘کہاجاتا ہے۔اس طرح سیال کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ دماغ یا حرام مغز کسی قسم کے مرض میں تو مبتلا نہیں ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سی ایس ایف کو نہ تو علاج میں استعمال کیاجاسکتا ہے اورنہ ہی ایک فرد سے نکالاگیا مادہ کسی دوسرے فرد کو منتقل کیاجاسکتا ہے۔ اس کا استعمال صرف یہی ہے کہ اس سے مریض کے اندر پائے جانے والے کسی مرض کی تشخیص کی جائے۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حافظ آباد میں لڑکیوں کے جسم سے نکالے جانے والا سی ایس ایف کسی مقصد کے لیے استعمال ہورہا ہے۔