برسبین: آسٹریلیا کی ایک یونیورسٹی نے برقی چپ پر انسان اور چوہوں کے خلیات رکھ کر انہیں مزید طاقتور بنانے کا عزم کیا ہے۔ اس کے لیے فوجی تحقیقی اداروں کی جانب سے فنڈنگ مل چکی ہے۔
اس مںصوبے کو ’ڈش برین‘ کا نام دیا گیا ہے جس میں انسانی دماغی خلیات اور برقی سرکٹ کو ایک ساتھ سمویا گیا ہے اور پھر مصنوعی ذہانت کے استعمال سے اسے دوچند کیا جائے گا۔
موناش یونیورسٹی ک سائنسدانوں نے ڈش برین کو نیم حیاتیاتی کمپیوٹر چپ میں بدلا ہے جس میں برقیروں پر انسان اور چوہے کے لگ بھگ 8 لاکھ دماغی خلیات زندہ حالت میں رکھے ہیں۔ اس سے قبل یہ چپ صرف پانچ منٹ میں ’پنگ پانگ‘ نامی کمپیوٹرگیم کھیل سیکھ چکی ہے۔
ڈش برین ایک جانب تو عصبی خلیات کو پڑھ سکتی ہے اور دوسری جانب برقی سگنل کو ان سے منسلک کرتی ہے۔ اس سے ایک گیم کھیلا گیا ہے جس میں پہلی مرتبہ انسانی خلیات اور کمپیوٹرچپ نے مشترکہ کردار اداکیا ہے۔ واضح رہے کہ زندہ خلیات کو تجربہ گاہ کی پیٹریائی ڈش میں کاشت کیا گیا تھا۔
اس طرح پہلی مرتبہ انسانی دماغی خلیات کو بیرونی دنیا کو محسوس کرنے کے قابل بنایا گیا بلکہ عمل کے قابل بھی کیا گیا۔ اس کامیابی کے بعد آسٹریلیا کے عسکری ادارے کے تحت اسے اینٹلی جنس اور سیکیورٹی کی مد میں چار لاکھ ڈالر کی تحقیقی گرانٹ دی گئی ہے۔
پروگرام کے سربراہ عدیل رضوی نے بتایا کہ زندہ خلیات والی چپ کو آٹومیشن، منصوبہ بندی، روبوٹکس، ادویہ سازی اور دماغ وکمپیوٹر کے درمیان تعلق جیسے اہم شعبوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔