18

پی اے سی نے چیف جسٹس اور ججز کی مراعات کی تفصیلات مانگ لیں

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نورعالم کی زیر صدارت ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو فنڈز عوام کے پیسوں سے دئیے جاتے ہیں۔

نور عالم خان نے کہا کہ پی اے سی سپریم کورٹ کی آڈٹ رپورٹ کو زیر غور لائے گی، اس موقع پر لیگی رکن شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ تنخواہ کے ساتھ ساتھ ججز کی مراعات کی تفصیل بھی منگوائیں، انہوں نیسپریم کورٹ کے بجٹ میں کٹوتی کا مطالبہ بھی کر دیا۔

پی اے سی نے چیف جسٹس اور ججز کی مراعات کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں، اسسٹنٹ رجسٹرار سپریم کورٹ نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو خط لکھا جس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کی منظوری سے خط اکاؤنٹس کمیٹی کو بھجوایا گیا ہے۔

خط میں لکھا گیا کہ آئین آرٹیکل 81 کی ذیلی شق دو کے تحت سپریم کورٹ کے اخراجات لازمی اور غیر تصویبی ہوتے ہیں،سپریم کورٹ کے بجٹ پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ نہیں ہوسکتی،پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو سپریم کورٹ کے مالیاتی امور کی جانچ پڑتال کا کوئی اختیار حاصل نہیں، خط میں مزید کہا گیا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے روبرو پیش ہونے کے پابند نہیں ہیں۔

صدر،وزیر اعظم، چیف جسٹس سمیت 7 اعلیٰ عہدیداران کی تنخواہ اورمراعات کی تفصیلات طلب کر لی گئی ہے۔ چیئرمین پی اے سی کا کہنا تھا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ پی اے سی میں ضرور پیش ہوں گے۔

برجیس طاہر کا کہنا تھاکہ آئین میں یہ لکھا ہے کہ جہاں عوام کے ٹیکس کا پیسہ لگے اس کا آڈٹ ہو گا،آج روایات کے برعکس رجسٹرار سپریم کورٹ پیش نہیں ہوئے،ججز کا احتساب 10 گنا زیادہ ہونا چاہیے،اگر ہم اُن سے تفصیلات نہیں لے سکتے تو پھر پی اے سی کو ختم ہو جانا چاہیے۔

چیئرمین پی اے سی کا کہنا تھا کہ اسپیکر اور سیکرٹری قومی اسمبلی سے درخواست ہے کہ قانونی معاونت چاہیے،یہ اہم معاملہ ہے اس پر قانونی رائے بہت ضروری ہے،رجسٹرار سپریم کورٹ پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ہیں، ان کو سمن کیا گیا،اگر پرنسپل اکاونٹنگ آفیسر نہیں آتے تو پھر ان کے وارنٹ ایشو کردیتے ہیں۔

اس موقع پر اراکین نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کو ایک بار پھر سمن کریں،جس پر نور عالم خان نے کہا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کو کمیٹی میں پیش ہونے کا ایک اور موقع دیتے ہیں،اگلے منگل کو کمیٹی میں بلانے کا کہہ دیا،اس حوالے سے قومی اسمبلی کے ایوان سے بھی اجازت لوں گا۔