45

کراچی میں کانگو وائرس سے ایک شخص جاں بحق

محکمہ صحت سندھ کی جانب سے پیر کو کراچی میں کانگو وائرس کے مریض کی موت کی تصدیق کی گئی ہے۔

محمد عادل نامی 28 سالہ متوقفی، 5 مئی بروز جمعہ کو علاج کے دوران انتقال کر گئے تھے۔ چند روز قبل ان کا کانگو وائرس ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔

محکمہ صحت کے مطابق عادل ایک پیشہ ور قصاب تھے، اور لیاقت آباد کی ایک سپر مارکیٹ کے گوشت والے ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے تھے۔

تیس اپریل کو مریض نے بخار اور سر درد کے لیے گھر میں ہی پیراسیٹامول کی گولیاں لیں۔

محکمہ صحت کی سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مریض کو تیز بخار ہونے کے بعد دو مئی کو حبیب میڈیکل اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں انہیں ایک دن رکھا گیا۔

اس کے بعد، مریض کی ناک اور نتھنوں کی جھلیوں سے بار بار خون بہنے لگا۔

عادل کے ملیریا اور ڈینگی کے ٹیسٹ کرائے گئے جو منفی آئے۔

چار مئی کو محمد عادل کی حالت مزید بگڑ گئی اور انہیں نارتھ ناظم آباد کے ضیاء الدین اسپتال میں داخل کرایا گیا، جہاں ان کا انتہائی نگہداشت یونٹ میں علاج کیا گیا۔

تاہم، 5 مئی کو مریض کا انتقال ہوگیا۔

محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ مریض کے پاس کوئی پالتو جانور نہیں تھا اور نہ ہی اس نے حال ہی میں کراچی سے باہر سفر کیا تھا۔

تاہم، وہ جانوروں کی دیکھ بھال کرتے رہے تھے، کیونکہ وہ گوشت کی منڈی میں کام کرتے تھے۔

ذبح شدہ جانوروں کا گوشت زیادہ تر بھینس کالونی کے مذبح خانوں سے منڈی میں لایا جاتا تھا۔

کوئٹہ میں خاتون جاں بحق

اس سے قبل2 مئی کو کوئٹہ میں ایک خاتون کانگو وائرس سے جاں بحق ہوگئی تھیں۔

کانگو وائرس کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد خاتون کو کوئٹہ کے فاطمہ جناح جنرل اینڈ چیسٹ ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

مذکورہ خاتون کا تعلق افغانستان سے ہے، جو کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن کی رہائشی تھیں۔

کوئٹہ کے فاطمہ جناح اسپتال کے ڈاکٹر زبیر احمد نے ڈان اخبار کو بتایا کہ گزشتہ 10 دنوں میں وائرس سے یہ تیسری موت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”گزشتہ چار ماہ میں کانگو وائرس سے چار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔“

ان کے مطابق تمام مریضوں نے افغانستان کا سفر کیا تھا۔

کانگو وائرس کیا ہے؟

کریمین کانگو ہیمرجک فیور (CCHF) ایک وائرس کے انفیکشن کی وجہ سے ہوتا ہے جو چچڑی (ٹِکس) کیڑے کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔

کریمین ہیمرجک فیور کی اصطلاح پہلی بار 1944 میں کریمیا میں اس کی شناخت کے بعد دی گئی تھی۔

بیماری کا موجودہ نام 1969 میں کانگو میں اس بیماری کی بنیادی موجودگی کی وجہ سے پڑا۔

انسانوں کو یہ بیماری متاثرہ چچڑی یا جانوروں کے خون، متعدی خون، یا جسمانی رطوبتوں کے رابطے میں آنے سے لگتی ہے۔

CCHF وائرس جنگلی اور گھریلو جانور جیسے مویشی، بھیڑ، بکریاں اور دیگر مویشیوں میں پایا جاتا ہے۔

ہسپتالوں نے آلودہ طبی سامان، دوبارہ استعمال شدہ سوئیاں، اور طبی آلات کی ناکافی جراثیم کشی کی وجہ سے CCHF کے پھیلنے کے کیسز بھی بتائے ہیں۔

CCHF کے ابتدائی اشارے اور علامات

سر درد تیز درجہ حرارت کمر کی تکلیف جوڑوں کا درد پیٹ میں درد قے

اس کے علاوہ سرخ آنکھیں، سرخ جلد، گلے میں خراش، اور تالو پر پیٹیچیا (سرخ دھبے) ہونا عام بات ہے۔

یرقان اور زیادہ سنگین صورتوں میں موڈ اور حسی ادراک میں تبدیلی دوسری علامات ہیں جو ہو سکتی ہیں۔

سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق جیسے جیسے بیماری بڑھتی ہے، چچڑی کے کاٹنے کی جگہوں پر نشانات، ناک سے خون بہنا، اور کاٹنے کی جگہ سے بے قابو خون بہنا دیکھا جاسکتا ہے، جو بیماری کے چوتھے دن سے شروع ہوتا ہے اور تقریباً دو ہفتوں تک رہتا ہے۔

CCHF وباء کے دستاویزی کیسز میں ہسپتال میں داخل مریضوں میں اموات کی شرح 9 سے 50 فیصد تک ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق وائرس سے متاثرہ افراد یا جانوروں کے لیے کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔

کانگو وائرس کے ریض کا علاج بنیادی طور پر اس کا خیال رکھنا ہے۔

اس دیکھ بھال میں جسم میں سیال کا توازن اور الیکٹرولائٹ اونچ نیچ کی اصلاح، آکسیجنیشن، ہیموڈینامک سپورٹ، اور ثانوی انفیکشن کا مناسب علاج شامل ہونا چاہیے۔

یہ وائرس اینٹی وائرل دوائی رباویرن کے حوالے سے حساس ہے۔ اور مبینہ طور پر مریضوں کے علاج میں استعمال کیا گیا ہے۔