22

ایک ساتھ انتخابات: حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات منگل تک ملتوی

حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور بے نتیجہ ختم ہو گیا اور فریقین نے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کرتے ہوئے اسے منگل تک ملتوی کردیا۔

آج پی ٹی آئی سے مذاکرات کے آغاز سے قبل قائد ایوان سینیٹ سینیٹر اسحٰق ڈار کے چیمبر میں حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ارکان کی اہم ملاقات ہوئی۔

اجلاس میں اسحٰق ڈار، یوسف رضا گیلانی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور نوید قمر شریک ہوئے جس میں مذاکراتی نشست میں پیش کی جانے والی حکومتی تجاویز پر گفتگو کی گئی۔

اس حوالے سے جب وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ سے سوال کیا گیا کہ کیا اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے حکومتی تجاویز کو حتمی شکل دے دی گئی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ابھی گفتگو جاری ہے حتمی شکل کیسے دی جا سکتی ہے۔

بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف کا وفد بھی مذاکرات کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے وفد میں شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور بیرسٹر علی ظفر شامل ہیں جنہوں نے چیئرمین سینیٹ سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی۔

اس کے بعد حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان پارلیمنٹ ہاوس کے کمیٹی روم نمبر تین میں مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ شروع ہوا۔

تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی میں شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور بیرسٹر علی ظفر شامل ہیں جبکہ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کی نمائندگی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اسحٰق ڈار، یوسف رضا گیلانی اور نوید قمر کر رہے ہیں۔

مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی میں خواجہ سعد رفیق، طارق بشیر چیمہ اور کشور زہرہ بھی شامل ہیں۔

حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ڈیڑھ گھنٹے تک مذاکرات کے بعد کچھ دیر کا وقفہ کیا گیا اور سینیٹر اسحٰق ڈار نے بتایا کہ 15 منٹ کے بعد دوبارہ مذاکرات شروع ہوں گے۔

مذاکرات کے دورے دور کے بعد اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ آج کی پیش رفت پر عمران خان کو اعتماد میں لیں گے اور اس تناظر میں منگل کو بات ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ آج گفتگو کا آغاز ہی اس نکتہ پر ہوا کہ آج اسلام آباد میں جو گرفتاریاں ہوئی ہیں ان کا کوئی جواز نہیں ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نہ کسی پر ایف آئی آر درج تھی نہ کسی نے امن میں خلل پیدا کیا لیکن گاڑی میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو اٹھا لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف مذاکرات دوسری طرف ایسا ماحول ہے تو ان (حکومتی نمائندوں) سے یہی کہا گیا کہ یہ کیا جا رہا ہے، کیا مذاکرات کے لیے ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جس پر ان کو ہماری بات سمجھ آئی اور ہمارے 33 کارکنان کو رہا کردیا گیا۔

یاد رہے کہ ان مذاکرات سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی پارٹی کے نمائندوں کو ہدایت کی تھی کہ اگر حکومت فوری اسمبلی توڑ کر الیکشن کرانا چاہتی ہے تو ہی بات کریں۔

حکومت، پی ٹی آئی مذاکرات

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کے حوالے سے مذاکرات کا پہلا دور گزشتہ روز ہوا تھا جس میں فریقین نے بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا تھا کہ پی ٹی آئی نے میٹنگ کے دوران تین اہم مطالبات پیش کیے جو درج ذیل ہیں:

جولائی میں عام انتخابات کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے مئی میں قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں۔
اگر حکومت پنجاب میں انتخابات کے لیے 14 مئی کی تاریخ سے آگے جانا چاہتی ہے تو انتخابات کو 90 دن سے زیادہ مؤخر کرنے کے لیے ایک بار کی رعایت کے لیے آئینی ترمیم منظور کرائی جائے۔
اسپیکرپی ٹی آئی کے اراکین کے استعفوں کی منظوری کا حکم واپس لیں تاکہ ان کی قومی اسمبلی میں واپسی ہوسکے۔
اتحادی حکومت کی جانب سے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر تجارت نوید قمر، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور سابق وزیراعظم سینیٹر یوسف رضا گیلانی مذاکرات میں شریک تھے۔

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوئے، فریقین کے درمیان مذاکرات شروع ہونے سے قبل حکومتی اور تحریک انصاف کی کمیٹی ارکان نے چیئرمین سینیٹ کے چیمبر میں مشاورت بھی کی تھی۔