40

سائنسدانوں نے کھائی جانے والی بیٹری ایجاد کرلی

روم، اٹلی: اطالوی سائنسدانوں نے ایسی بیٹری کا پروٹوٹائپ (اولین نمونہ) بنایا ہے جسے کھایا بھی جاسکتا ہے۔

اٹالیئن انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) کے ڈاکٹر ماریو کیرونی نے عین انسانی جسم اور خلیات میں جاری حیاتی کیمیائی ردِ عمل (ریڈوکس ری ایکشن) پر کام کرنے والی بیٹری تیار کی ہے۔

اس بیٹری کےاینوڈ وٹامن بی ٹو یا رائبوفلے وِن پرمشتمل ہیں جبکہ کیتھوڈ کیورسیٹن سے بنا ہے۔ یہ دونوں اجزا کئی پھلوں اور پودوں میں پائے جاتے ہیں۔ پھر اس میں بجلی کے بہاؤ (کنڈکٹوٹی) کو بہتر بنانے کے لیے چارکول ملایا گیا ہے۔

اس کے برقیرے (الیکٹرولائٹ) پانی پر مشتمل ہیں اور الگ کرنے والا سیپریٹر اینوڈ اور کیتھوڈ کے درمیان ایک نفوذ پذیر جھلی کا کام کرتا ہے۔ لیکن برقیرے درحقیقت سمندری گھاس پرمشتمل ہے جو سوشی ڈش میں استعمال ہوتی ہے۔ اس کے بعد سونے کے باریک ورق پر شہد کی مکھی کا موم جمایا گیا ہے۔

تجرباتی بیٹری 0.65 وولٹ کی بنائی گئ ہے اور چارج ہونے پر اس نے 12 منٹ تک 48 مائیکروایمپیئر بجلی خارج کی۔ اگرچہ یہ بہت زیادہ توانائی نہیں لیکن چھوٹے سینسر اور ایل ای ڈی وغیرہ کو اس سے چلایا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر ماریو کے مطابق کھائے جانے والے سرکٹ اور بیٹریوں کو صحت اور کھانے کے گوداموں کی نگرانی میں استعمال کیا جاسکتا ہے اور یوں ماحولیاتی نقصان بھی کم کم ہوتا ہے۔ اس طرح یہ بیٹریاں بہتر انسان دوست اور تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں بچوں کے کھلونوں میں بھی انہیں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اکثر بچے کھلونوں کی چھوٹی بیٹریوں اور بٹن کو نگل لیتے ہیں جو کئی مرتبہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔