92

چینی فوج کا بحیرہ جنوبی چین میں آنےوالے امریکی جہاز کوبھگانےکا دعویٰ

 چینی فوج نے بحیرہ جنوبی چین میں داخل ہونے والے امریکی جنگی جہاز کو وارننگ دے کر بھگانے کا دعویٰ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق چین کی فوج کا کہنا ہے کہ ایک امریکی بحری جہاز متنازعہ پانیوں میں آیا جس کو انتباہ کیا گیا کہ فوری طور پر وہاں سے چلا جائے۔ دوسری جانب امریکا نے چینی دعوے کو جھوٹ قرار دیا ہے۔ چین بحیرہ چین کے زیادہ تر حصے پر ملکیت کا دعوٰی رکھتا ہے اور  یہ سمندر کا حصہ ہے جہاں سے ہر سال کھربوں ڈالر کے سامان کی تجارت ہوتی ہے جبکہ اس کے بارے میں بین الاقوامی عدالت فیصلہ دے چکی ہے کہ یہ دعوٰی قانونی لحاظ سے بے بنیاد ہے۔

 فلپائن، ویت نام، ملائیشیا اور برونائی سب ہی سمندری حدود پر دعوے رکھتے ہیں جبکہ امریکہ اس کے ذریعے بحری جہاز بھیجتا ہے۔فلپائن، ویت نام، ملائیشیا اور برونائی سبھی سمندر میں اوورلیپنگ دعوے کرتے ہیں کہ وہ اس علاقے میں جہاز نیویگیشن کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے جہاز بھیجتا ہے۔

چین کی پیپلز لبریشن آرمی کا کہنا ہے کہ جمعرات کو امریکا کا ایک ایسا جنگی بحری جہاز پیراسل جزائر کے قریب سے چینی پانیوں میں داخل ہوا جس پر میزائلز کو نشانہ بنانے کے آلات بھی نصب تھے۔ پیراسل جزائر کو ویت نام اپنی ملکیت قرار دیتا ہے۔

چینی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فورسز حرکت میں آئیں اور فوری طور پر پتہ چلایا گیا کہ وہ کس حصے میں ہے۔ جس کے بعد خبردار کیا گیا کہ کہ فوری طور پر یہاں سے نکل جائے۔’جہاز چینی حکومت سے اجازت لیے بغیر غیرقانونی طور پر چین کے پانیوں میں داخل ہوا جس سے خطے میں امن اور استحکام کی کوششوں کو نقصان پہنچا۔‘

دوسری جانب امریکہ کی فوج نے اس دعوے کی مکمل طور پر تردید کی ہے اور اے ایف پی کو بتایا کہ ’چین کا بیان غلط ہے۔امریکی فوجی کی انڈوپیسفک کمانڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جہاز بحیرہ جنوبی چین میں معمول کے مطابق سفر کر رہا ہے اور اس کو نہیں نکالا گیا ہے۔ ’جہاں تک بین الاقوامی قوانین اجازت دیتے ہیں وہاں تک امریکی جہاز اڑتے رہیں گے اور کشتیاں سفر کرتی رہیں گی۔‘

چینی حکام کی جانب سے سمندر کے اس حصے میں کچھ مصنوعی جزیرے بھی بنائے گئے ہیں جن میں وہ جزیرے بھی شامل ہیں جہاں فوج سے متعلق سہولتیں موجود ہیں اور وہاں رن ویز بھی موجود ہیں۔خطے کے دوسرے ممالک بھی چین پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ اس کی جانب سے ان کی مچھیروں کی کشتیوں کو بھی ہراساں کیا جاتا رہا ہے۔