پاکستان کے لکس اسٹائل ایوارڈز کی تقریب ستاروں کی پرفارمنس اور انہیں دیئے گئے ایوارڈز کی وجہ سے نہیں بلکہ تقریب کے بعد دو ستاروں کی سوشل میڈیا پر تکرار کی وجہ سے موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ پہلے سجل علی اور عدنان صدیقی آمنے سامنے آئے، پھر اعجاز اسلم اور فرحان سعید بھی بحث میں کود پڑے۔ سوشل میڈیا صارفین اور ان ستاروں کے پرستار بھی اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ وجہ تھی تقریب کے دوران قومی ترانے کو نئے ڈھنگ سے پیش کرنا۔
لکس اسٹائل ایوارڈز کا آغاز ہمیشہ کی طرح قومی ترانے سے کیا گیا۔ معروف گلوکار شہزاد رائے اور کوک اسٹوڈیو سے شہرت پانے والے وہاب بلوچ فنکار وہاب نے یہ ترانہ گایا، بول تو وہی تھے لیکن انداز کچھ الگ تھا۔
تقریب ختم ہوئی تو سوشل میڈیا پر نئی بحث شروع ہو گئی، جہاں ترانے کو کئی لوگوں نے سراہا وہیں اداکار عدنان صدیقی سے سب سے پہلے نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا تخلیقی آزادی کی آڑ میں قومی ترانے میں ردو بدل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ قومی ترانے کو تمام تقریبات اور ایوارڈ شوز میں اصل موسیقی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، جس سے عوام میں حب الوطنی بیدار ہوتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا پاکستانی آئین کسی کو تخلیق کے نام پر قومی ترانے کو ری مکس کی صورت میں پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے؟
عدنان صدیقی نے یہ بھی کہا کہ شاید ان کی رائے غلط ہو، لیکن انہیں یہ سب اچھا نہیں لگا، انہوں نے صارفین سے اس بارے میں ان کی رائے بھی پوچھی۔
صارفین نے بھی اس بحث میں کھل کر حصہ لیا ، کسی نے اداکار کی بات سے اتفاق کیا تو کسی نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ترانے کے الفاظ وہی ہیں جن سے وطن سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ بیشتر صارفین نے کہا کہ قومی ترانے کو جیسا ہے ویسا ہی پیش کیا جانا چاہیے، ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کو آپ نئے انداز میں پیش کر سکتے ہیں لیکن قومی ترانہ ان میں سے نہیں ہے، کیونکہ یہ ہماری قوم کی پہچان ہے۔
کچھ صارفین کا کہنا تھا کہ ترانے کو نئے انداز میں پیش کرنا کوئی برائی نہیں، دوسرے ممالک میں ترانوں کی دھن اور میوزک میں ہلکا پھلکا ردو بدل جائز ہے، اس سے نئی نسل بھی اس سے زیادہ قربت محسوس کرتی ہے۔
معاملہ تب بڑھا جب اداکارہ سجل علی بھی میدان میں آگئیں، اور انہوں نے عدنان صدیقی کو ٹیگ کر کے ان کی بات سے سب سے کے سامنے اختلاف کیا۔ سجل علی نے لکھا پاکستان کا تنوع ہی اسے خوبصورت بناتا ہے۔ شہزاد رائے اور وہاب بگٹی نے کوئی قانون نہیں توڑا، ان کا گانا ہمارے آئین کی اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔
اس پر عدنان صدیقی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تخلیق کے نام پر قومی پرچم کو الٹا لہرائیں اور قومی نشان کو اپنی مرضی کا ڈیزائن دیں؟ عدنان صدیقی نے سجل علی کو کہا کہ انہوں نے اپنی پوسٹ میں کسی فنکار کا نام نہیں لیا، تو سجل بھی غیر ضروری تنازع کھڑا نہ کریں۔
اس بحث میں اداکار اعجاز اسلم نے بھی انٹری کی، اور کہا کہ ان کے نزدیک عدنان صدیقی کا نکتہ نظر واضح ہے ، کسی ایسی چیز کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہ کریں جو پہلے سے ہی بے مثال ہے۔
دوسری جانب فرحان سعید نے عدنان صدیقی کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا کہ میں عدنان صدیقی کی بہت عزت کرتا ہوں، اور میں جانتا ہوں کہ وہ کسی کو تکلیف پہنچانے کیلئے کچھ نہیں کریں گے، آپ ایسا محسوس کرتے ہیں تبھی آپ نے یہ سب کہا لیکن خدا کا واسطہ ہے یہ وہ آخری چیز ہے جو ہم پاکستان میں ۔۔ نہ کرنے کی۔۔ فہرست میں شامل کرنا چاہتے ہیں، یہ ترانہ بہت خوبصورت ہے۔
اب اس میں بحث میں کون صحیح ہے اور کون غلط اس کا فیصلہ تو مشکل ہے، لیکن یہ یاد رکھیے کہ قومی ترانے کو نئے انداز میں پیش کرنا یہ پہلی بار نہیں ہوا، بلکہ رواں برس ہی یوم آزادی کے موقع پر حکومت پاکستان نے اصل قومی ترانے کی نئی ریکارڈنگ کو ریلیز کیا تھا۔
قومی ترانے کو 68 سال بعد دوبارہ پرانی دھن پر ہی ریکارڈ کیا گیا اور ملک کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت اسلام آباد کے گلوکاروں نے اس میں اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔