35

فالج کی علامات، وجوہات اور بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر 4 میں سے ایک مرد اور ہر 5 میں سے ایک عورت کو کسی بھی وقت فالج ہو سکتا ہے۔

عالمی یوم فالج کے حوالے سے لیاقت کالج آف میڈیکل اینڈ ڈینٹسری میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان فالج سمیت متعدی امراض کی شرح 40 فیصد ہے جبکہ 5 فیصد آبادی فالج سے متاثر ہے اور 10 لاکھ افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔

سیمینار سے نیورولوجی ایورنس اینڈ ریسرچ فائونڈیشن کے صدر پروفیسر محمد واسع، پاکستان اسٹروک سوسائٹی کے وائس پریذیڈنٹ پروفیسر عبدالمالک، سندھ انسٹیٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلیٹیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹرپروفیسر نبیلہ سومرو، معروف نیورولوجسٹ پروفیسر عارف ہریکر اور ڈاکٹر راشد نسیم نے خطاب کیا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر محمد واسع کا کہنا تھا کہ فالج عمر کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں فالج کی وجہ سے شرح اموات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، دنیا بھر میں ہر چارمیں سے ایک مرد اور ہر پانچ میں سے ایک عورت کو کسی بھی وقت فالج ہو سکتا ہے۔

پروفیسر محمد واسع کا کہنا تھا کہ پاکستان آبادی کے اعتبار سے دُنیا کا چھٹا بڑا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے مُلک میں فالج سمیت غیر متعدی امراض کی شرح تقریباً 40فی صد سے زائدہے، پاکستانی آبادی کا تقریباً 5فی صد حصّہ فالج کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس اعتبار سے لگ بھگ 10لاکھ افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل تک فالج کوایک لاعلاج مرض سمجھا جاتا تھا مگر اب مختلف تحقیقات کے بعد یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ قابل علاج مرض ہی نہیں بلکہ اس کے حملے سے بچاؤ بھی ممکن ہے۔

پروفیسر محمد واسع کا کہنا تھا کہ عوام کی بڑی تعداد تاحال فالج کے بروقت معیاری اور سستے علاج سے محروم ہے، جس کے سبب پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 4 لاکھ سے زائد افراد انتقال کرجاتے ہیں اور لاکھوں افراد مستقل معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

ڈاکٹر محمد واسع نے کہا کہ فالج ایسا مرض ہے جو جسم کے کسی بھی حصّے کو مفلوج کرسکتاہے، جب کہ بعض کیسز میں اس کا حملہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس کی علامات میں جسم کے کسی ایک حصّے کا سُن ہوجانا، قوّتِ گویائی سے محرومی یا باتوں کو سمجھ نہ پانا، کھانے پینے میں دشواری، چلنے پھرنے سے معذوری، نظر نہ آنا یادھندلاہٹ وغیرہ شامل ہیں۔

سیمینار سے خطاب میں ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا تھا کہ اگر فالج کے شدید حملے کے بعد پیچیدگیوں اور اموات کی شرح میں کمی لانی ہے، تو اس کے لیے سب سے ضروری تمام ٹیچنگ اسپتالوں میں اسٹروک یونٹس کا قیام ضروری ہے ان فالج کئیر یونٹس کا قیام عمل میں لاکراموات و معذوری کی شرح میں کم ازکم 20فی صد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔

ڈاکٹر عارف ہریکر کا کہنا تھا کہ اس وقت مُلک بَھر میں تربیت یافتہ اسٹروک اسپیشلیسٹس کی تعداد انتہائی کم ہے اور وہ بھی صرف دو تین شہروں کے نجی اسپتالوں سے وابستہ ہیں۔ مُلک بَھر میں 22کروڑ کی آبادی کے لیے موجود ماہرین دماغ و اعصاب (نیورولوجسٹ) کی تعداد 200کے لگ بھگ ہے۔ ماہر ڈاکٹرز کی اس کمی سے بہرحال فالج کے علاج میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے لیے مرکزی حکومت، صوبائی حکومتوں کے تعاون سے قومی ٹاسک فورس تشکیل دے،جس میں ماہرینِ طب بھی شامل ہوں، جوفالج سے بچاؤ اور درست علاج کی آگاہی کا کام بڑے پیمانے پرانجام دیں۔علاوہ ازیں، اس ٹاسک فورس کی یہ بھی ذمّے داری ہو کہ وہ مُلک میں نیشنل اسٹروک رجسٹری کا قیام عمل میں لائے۔