50

دی لیجنڈ آف مولا جٹ میں ایک ہی شخص کا آڈیشن ہوا اور وہ میں تھی ۔ صائمہ بلوچ

پاکستانی اداکارہ صائمہ بلوچ نے کہا میگا بجٹ فلم لیجنڈ آف مولا جٹ میں رجو کے سینزتو بہت کم ہیں۔ تاہم فلم میں جب بھی رجو کا کردار جب بھی نظر آیا اس نے فلم بینوں کی توجہ سمیٹی ۔

سما ڈیجٹل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صائمہ بلوچ نے کہا کہ دی لیجنڈ آف مولا جٹ کا ان کو 4 سال سے بے صبری سے انتظار تھا ۔ انہوں نے فلم کی ریلیز کے لیے بہت سی دعائیں مانگیں ۔ تاہم جب فلم کی ریلیز کی تاریخ کا اعلان ہوا تو انہیں بے حد افسوس ہوا کہ ان کو پروموشن کےسلسلے میں نظر انداز کیا گیا ۔ صائمہ بلوچ نے بتایا کہ فلم میں ان کے نبھائے گئے کردار رجو اور 1979 میں پیش کی گئی فلم مولا جٹ کی عالیہ کے کرداروں میں کوئی مماثلت نہیں ہے ۔ رجو کا کردار بالکل مختلف ہے انہوں نے کہا کہ اپنے کردار کے حوالے سےفلم کے مصنف ناصر ادیب سے بات کی ۔ ناصر ادیب کا کہنا تھا فلم کا یہ وہ واحد کردار تھا جو کہ 1979 کی فلم سے مکمل طور پر مختلف ہے اور بالکل الگ ہی ترتیب دیا گیا ہے ۔ اسی کردار نے فلم کے کلائمکس کو بھی جڑے رکھا۔

صائمہ کا کہنا تھا کہ فلم میں جب بھی وہ دکھائی دی ۔ فلم کے اگلے سین میں یہ اندازہ کیا جاتا کہ اب ان کا کردار ختم ہو گیا ہے ۔ تاہم رجو جب جب بھی فلم میں دکھائی دی اس نے فلم بینوں کی توجہ سمیٹی ۔

دی لیجنڈ آف مولا جٹ میں صائمہ بلوچ کا کردار:

فلم صائمہ بلوچ کے گوکہ بہت کم سین ہیں ، تاہم صائمہ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس فلم کو اپنی زندگی کے ڈیرھ ماہ دیئے ۔ جس میں وہ چارمرتبہ کراچی سے لاہور گئیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ماہ انہوں نے ڈانس کی پریکٹس کی کیونکہ فلم میں ڈانس سین پر کچھ کہے بنا ہی ایسا پرفارم کرنا تھا کہ ان کی درد اور تکلیف ان کے چہرے کے تاثرات اور ڈانس سے ظاہر ہو سکے ۔

صائمہ نے یہ بھی بتایا کہ اس فلم میں وہ واحد اداکارہ تھیں جن کو باقاعدہ آڈیشن کے مرحلے سے گزرنا پڑا ۔ انہوں نے یہ بتایا کہ فلم کے ہدایت کار نے ان کو بتایا کہ انہوں نے فلم میں رجو کے کردار کو ادا کرنے کے لئے 4 برس سے اداکارہ کی تلاش کی جس کے بعد انہیں ایک آڈیشن کے ذریعے منتخب کیا گیا ۔ صائمہ کا کہنا تھا کہ صرف ان کے کردار کے علاوہ باقی تمام اداکاروں کو معلوم تھا کہ انہوں نے کیا کردار نبھانا ہے ۔

صائمہ نے اس بات کا بھی شکوہ کیا کہ فلم کی پروموشن میں انکو بالکل نظر انداز کیا گیا ، یہاں تک کہ وہ صرف فلم کے پرئیمیر میں ہی گئیں ۔

صائمہ بلوچ کا تعلق روایتی بلوچ خاندان سے ہے :

صائمہ بلوچ نے اپنے کیئر کا آغاز ایک رئیلیٹی شو نچ لے سے کیا ۔ ان کا تعلق ایک ایرانی بلوچ خاندان سے ہے۔ جس میں روایتی طور پر خواتین کو شوبز کا حصہ بننے کی اجازت نہیں ۔ خود کو منوانے کے لیے صائمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہت کوشش کی یہاں تک کہ ان کے بھائی اور رشتے دار ان سے بات نہیں کرتے ان کے اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ تاہم صرف ان کی والدہ نے شوبز کا حصہ بننے کی خواہش کو قبول کیا ۔ صائمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی والدہ کو سمجھایا کہ وہ ایک فنکار ہیں، وہ بند کمرے میں کتنی ہی دیر ڈائیلاگز بولتیں ، اور ڈانس کرتیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈانس سے انہیں اچھا لگتا ہے ۔

12 برس کا فنی سفر:

صائمہ بلوچ کا کہنا ہے کہ انہوں نے 12سال اس انڈسٹری کو دیئے ان بارہ برسوں میں ان کے پاس صرف تین فلمز ( بےتابیاں ، ہجرت اور دی لیجنڈ آف مولا جٹ ) شامل ہیں ۔ جبکہ اس کے علاوہ انہوں نے برائینڈ شوٹس کیے ، صائمہ کا کہنا تھا کہ وہ ایک میتھڈ ایکٹر ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ انجلینا جولی ، عرفان خان ، نوازالدین صدیقی اور ودیا بالن ان کے پسندیدہ اداکار ہیں۔ کیونکہ یہ وہ اداکار ہیں جو کردار میں ڈوب جاتے اور کردار کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ وہ اداکاری کر رہے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ مزید کام دینے کے حوالے سے انڈسٹری کے بڑوں کے پاس بہت بہانے موجود ہیں ، پہلے کہتے تھے کہ وزن زیادہ ہے وزن کم کرو ۔ 7 سال جیم کیا اور اب تین برسوں سے یوگا کر رہی ہوں اور اب یوگا زندگی کا لائف اسٹائل بن گیا ہے۔

مزید آفرز کیا ہیں ؟

صائمہ بلوچ نے کہا کہ انہیں آفرز تو موجود ہیں ، تاہم وہ پاکستانی ڈراموں میں روایتی کام کرنے کے حوالے سے مطمئن نہیں ہیں۔ کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ڈراموں میں مزدوری ہو رہی ہے ۔ کہ سیٹ پر جاو کہا جاتا ہے جلدی کریں جلدی کریں ، صائمہ کا کہنا ہے کہ ایسے اچھا کام نہیں ہو سکتا ہے ۔

پاکستانی شوبز :

بلوچ اداکارہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی صنعت بن رہی ہے تاہم ایسا نہیں ہو سکتا کہ جو اداکارہ فلموں میں ہو وہی ڈراموں میں بھی دکھائی دیں تو فلم اور ڈرامے کا فرق ختم ہو جاتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کبھی موقع ملا اور ان کے مطابق کوئی کردار ملا تو وہ ڈراموں میں اداکاری کر سکتی ہیں تاہم ان کی زیادہ ترجیح فلم ہے کیونکہ فلم ٹی وی سے بڑا میڈیم ہے ۔