جنوبی کیلیفورنیا: امریکی یونیورسٹی کے ایک سروے میں ماہرین سماجی تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے لوگوں کی شخصیت اور احساسات کو تبدیل کر دیا ہے۔
طبی جریدے ’پلوس‘ میں شایع شدہ مقالے کے مطابق یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے معاشی و سماجی تحقیق کے مرکز کے زیر انتظام ’انڈراسٹینڈنگ امریکا اسٹڈی‘ نامی پروجیکٹ کے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کووِڈ نائنٹین کے وبائی مرض نے کم عمر اور جوان افراد کی شخصیت پر گہرا اثر مرتب کیا ہے۔
کرونا وائرس کی وبا کے آغاز ہی سے طبی اور سماجی ماہرین اس کے نفسیاتی اثرات کا پتا لگانے میں دل چسپی رکھتے آ رہے ہیں، اب اس تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ کرونا کی وبا سے لوگوں کی شخصیت اور احساسات ہی تبدیل ہو رہے ہیں اور لوگ ماضی کے مقابلے دوسروں کی مدد کرنا پسند نہیں کر رہے۔
اس تحقیق کے مطابق کرونا کی وبا سے انسانی شخصیت، حواس اور احساسات میں نمایاں فرق دیکھا گیا، جو لوگ کرونا کے آغاز میں دوسروں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنا پسند کرتے تھے، وہ وبا کے دو سال بعد دوسروں کی مدد کرنے میں غیر متحرک دکھائی دیے۔
امریکی ماہرین نے اس تحقیق کے لیے 7 ہزار سے زائد افراد سے سروے میں سوالات اور کچھ ٹیسٹ کیے، اس میں 18 سے 109 سال تک کی عمر کے افراد کو شامل کیا گیا تھا، جن سے کرونا کے آغاز یعنی پہلے مرحلے میں مارچ 2020 اور بعد ازاں 2021 کے آخر اور 2022 کے آغاز میں سوالات کیے گئے۔
ماہرین نے تحقیق کے دوران کرونا کی وبا کے انسانی شخصیت اور احساسات پر 5 طرح کے اثرات کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ آیا وبا انسانی شخصیت اور سوچ کو تبدیل کرتی ہے یا نہیں۔
تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ کرونا کی وبا نے سب سے زیادہ کم عمر افراد کی شخصیت اور احساسات کو تبدیل کیا، ان میں جہاں اعتماد کی کمی دکھائی دی، وہیں ان میں ڈپریشن کی سطح زیادہ اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ بھی کم دیکھا گیا۔
نتائج کے مطابق کرونا کی وبا سے درمیانی عمر کے افراد کی شخصیت اور احساسات بھی تبدیل ہوئے اور عام طور پر نوجوانوں اور 30 سال کی عمر کے افراد میں محض دو سال کے اندر وہ تبدیلیاں دیکھی گئیں جو عام طور پر ایک دہائی بعد دیکھنے میں آتی ہیں، جب کہ 64 سال یا اس سے زائد کی عمر کے افراد میں اثرات کم دکھائی دیے۔