دنیا میں جب سے انٹرنیٹ متعارف ہوا ہے لوگوں کی بڑی تعداد ویب سے تو متعارف ہے لیکن یہ ڈارک ویب کیا ہے؟ کم لوگ ہی اس بارے میں جاتے ہیں۔
انٹرنیٹ کے موجد الگور نے جب 2000 میں انٹرنیٹ ایجاد کیا تو ڈارک ویب ان دنوں سے ہی موجود ہے، عوامی سطح پر ڈارک ویب کی بازگشت پہلی بار اس وقت سنائی دی جب 2010 کی دہائی میں مالیاتی لین دین کے لیے کرپٹو کرنسی عروج پر پہنچی اور انٹرنیٹ پر بلیک مارکیٹنگ کا میدان کھول دیا گیا۔
ڈارک ویب عالمی سطح پر ویب کا ایسا حصہ ہے جس تک رسائی کے لیے خاص سافٹ ویئر کی ضرورت ہوتی ہے، اس میں ایسی سائٹس شامل ہیں جو گوگل سرچز پر نظر نہیں آتیں، ڈارک ویب سائٹس تک رسائی کے لیے ٹور براؤزر کی ضرورت ہوتی ہے جو صرف ٹور نیٹ ورک پر دستیاب ہوتے ہیں۔
ڈارک ویب کھلنے کے بعد بالکل عام ویب سائٹ جیسی نظر آتی ہے، اس میں ڈارک نیٹ مارکیٹس ہوتی ہیں جہاں غیر قانونی کاروبار ہوتا ہے جس میں غیر اخلاقی مواد، اسلحہ، کسی بھی ویب سائیٹ یا شخصیات کا ہیک کیا گیا ڈیٹا اور جھوٹا آرٹ اور پینٹگز بیچی جاتی ہیں، خرید وفروخت کے لیے خصوصی کرنسی مثلاً بٹ کوائن کا استعمال کیا جاتا ہے۔
یوں تو پاکستان کے سربراہان اور حکومت سے جڑے افراد کی آڈیو لیکس پہلے بھی سامنے آتی رہی ہیں مگر حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی بھتیجی مریم نواز کے درمیان ٹیلیفون پر ہونیوالی گفتگو منظر عام پر آنے کے بعد اس پر پھر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ یہ معلومات کیسے باہر لیک ہو رہی ہیں۔
پاکستان میں ماضی قریب میں ہیکرز وزارت خزانہ، ایف بھی آر، نیشنل بینک آف پاکستان، کےالیکٹرک سمیت کئی بار اہم اداروں کی ویب سائٹ پر حملے کرکے قومی راز چوری کر چکے ہیں۔
ڈارک ویب سے متعلق اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں گفتگو کی گئی اور پروگرام میں شریک عمار جعفری، سابق ڈی جی سینٹر آف انفارمیشن ٹیکنالوجی عمار جعفری اور سابق ڈی جی آئی بی احسان غنی نے سیر حاصل گفتگو کی۔
سابق ڈی جی سینٹر آف انفارمیشن ٹیکنالوجی عمار جعفری کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں آپ کا موبائل فون ہی آپ کے راز فاش کرتا ہے، ہم جو ہر چیز ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اس کے ذریعے ہمارے فون کی تمام معلومات باہر جارہی ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے سینیئرز کو سیکیورٹی مقاصد کے تحت موبائل ہینڈلنگ کی تربیت دینی ہوگی اور انہیں بتانا ہوگا کہ اپنے سیل فون پر کسی غیر ضروری چیز کو ڈاؤن لوڈ نہ کریں کہ یہ سب بیک ڈور چینل ہوتے ہیں ڈیٹا چوری کرنے کیلیے۔
عمار جعفری نے مزید کہا کہ دنیا میں اتنی ترقی ہوچکی ہے کہ جاسوسی کیلیے انتہائی حساس آلات آچکے ہیں، ایئرکنڈیشنڈ آئی یو سی ڈیوائسس سمیت ہمارے دفاتر میں جتنے بھی برقی آلات ہیں اس میں اندر کی معلومات باہر ٹرانسفر کرنے والی ڈیوائسز لگی ہوئی ہیں، یہ سینسرز کسی سرور سے کنیکٹ بھی ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سوال تو یہ بنتا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کی ریکارڈنگ کیسے باہرچلی گئی؟ یہ بہت تشویشناک بات ہے، ہائبرڈ وار شروع ہوچکی ہے اور ہم اس کا حصہ بن چکے ہیں، اس وقت ہمیں قومی سطح پر سیکیورٹی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔