45

کیا انسولین انجیکشن ماضی کا قصہ بننے والے ہیں؟

دہائیوں سے ذیابیطس کے بیشتر مریضوں کو دن بھر میں اپنے بلڈ شوگر کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے انسولین کے انجیکشن استعمال کرنا پڑتے ہیں۔

مگر امکان ہے کہ مستقبل قریب میں ایک گولی انجیکشن کی ضرورت کو ختم کردے گی۔

خیال رہے کہ ذیابیطس کے مرض میں لبلبہ انسولین بنانے سے قاصر ہوجاتا ہے یا اس کی ناکافی مقدار بناتا ہے، یہ وہ ہارمون ہے جو خون میں گلوکوز کی سطح کم کرتا ہے۔

جس کے باعث مریضوں کو انسولین کے انجیکشن لگانے پڑتے ہیں ورنہ بلڈ شوگر لیول زیادہ رہنے سے سنگین طبی پیچیدگیوں جیسے گردوں کو نقصان پہنچنا، بینائی متاثر ہونا، امراض قلب اور فالج وغیرہ کا سامنا ہو سکتا ہے۔

مگر روزانہ کئی انجیکشن لگانا آسان نہیں ہوتا، اسی وجہ سے کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے ماہرین نے منہ کے ذریعے دی جانے والی انسولین گولی کی تیاری پر کام کیا ہے۔

ماہرین نے اسے 'گیم چینجنگ' دریافت قرار دیا ہے کیونکہ یہ دوا جسم میں انجیکشن کی طرح ہی کام کرتی ہے۔

اب تک اس دوا کے تجربات چوہوں پر کیے گئے ہیں اور نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں اور اب محققین انسانوں پر اس کی آزمائش کرنا چاہتے ہیں۔

جرنل نیچر سائنٹیفک رپورٹس میں شائع تحقیق میں ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم انسولین گولی کی تیاری کے حوالے سے درست سمت میں بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس دوا کے باعث ہر بار کھانے سے پہلے انجیکشن لگانے کی ضرورت نہیں جبکہ مریض کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔

انسولین کو دوا کی شکل دینا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ ایک پروٹین ہے اور گولی کی شکل میں یہ جگر تک پہنچنے سے پہلے ہی معدے اور آنتوں میں جذب ہو سکتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ انجیکشن میں عموماً 100 آئی یو مقدار انسولین دی جاتی ہے، جبکہ گولی کی شکل میں 500 آئی یو مقدار استعمال کرنا ہوگی جس میں سے بھی زیادہ تر ضائع ہوجائے گی۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عام گولی تیار کرنے کی بجائے ایک مختلف طریقہ کار اختیار کیا اور ایسی گولی تیار کی جو مسوڑوں اور گالوں کے درمیان ہی گھل جائے۔

چوہوں پر اس کے تجربات اب تک کامیاب رہے ہیں اور منہ میں گھل جانے کے باعث یہ دوا براہ راست دوران خون میں چلی جاتی ہے، جہاں سے یہ جگر تک پہنچ جاتی ہے۔

محققین کے مطابق چوہوں کو دوا استعمال کرانے کے 2 گھنٹے بعد بھی ہم نے معدے میں انسولین کو دریافت نہیں کیا بلکہ وہ جگر پہنچ گئی، جو ہمارا ہدف تھا۔

ابھی اس حوالے سے کافی کام ہونا باقی ہے کیونکہ ابھی انسانوں میں اس کی کامیابی کے لیے ٹرائل ضروری ہے جس میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ دوا سے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔