63

انور مقصود کے ڈرامے

کراچی میں تھیٹر اور سنیما گھروں کی رونقیں بحال ہوگئی ہیں ، ان دنوں آرٹس کونسل میں انور مقصود کا ڈرامہ ساڑھے 14 اگست پیش کیا جارہا ہے ،اس سے قبل پونے 14 اور سوا 14 اگست بھی پیش کیا جاچکا ہے۔

ڈرامے کے مرکزی کردار جناح اور گاندھی ہیں لیکن نٹ کھٹ گاندھی کا کردار اپنے برجستہ جملوں اور اداکاری کی وجہ سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے جب کہ بانی پاکستان کے خوبصورت برٹش ایکسنٹ اور سوٹ بوٹ کو بھی کافی پذیرائی مل رہی ہے۔

گاندھی کا کردار کس نے نبھایا؟

موہن داس کرم چند گاندھی کا کردار تنویر گل نے نبھایا ہے جو کئی سال سے تھیڑ سے وابستہ ہیں۔

 جیو ڈیجیٹل سے کی گئی خصوصی گفتگو میں تنویر نے اپنی کاسٹنگ کے حوالے سے بتایا کہ کورونا کے باعث تھیٹر بند تھے، کام نہیں تھا اس دوران ڈائریکٹر اور محمود نے گاندھی کا کردار کرنے کی آفر کی اور وزن کم کرنے کا کہا۔

 تنویر نے بتایا کہ موہن داس کرم چند گاندھی کا کردار نبھانا ان کے لیے مشکل تھا، اس کے لیے بزرگوں کے ساتھ بیٹھنا پڑا، ان کی باڈی لینگویج کاپی کرنے کی کوشش کی، گاندھی کی پرانی ویڈیوز دیکھیں، ان کے بولنے کے انداز کو اسٹڈی کیا، اس کردار کو کرنے کے لیے بال اتروائے جب کہ مجھے کہا گیا تھا کہ آپ گیٹ اپ کرلیں لیکن میں نے اسے حقیقی گاندھی سے ملانے کی خاطر میک اپ کے بجائے خود پر کام کرنے کو ترجیح دی اور جب سے اس پلے کی تیاری شروع ہوئی ہے تب سے میں بغیر ہیلمٹ، بائیک پر سفر کررہا ہوں تاکہ باڈی کا رنگ گاندھی کے کلر سے ملتا جلتا لگے۔

اس سے قبل تنویر ’کیوں نکالا‘ اور ’ناچ نہ جانے‘ تھیٹر پلے میں بھی کام کرچکے ہیں۔

پلے میں دکھائے گئے جناح کون ہیں؟

پلے میں دکھائے گئے جناح کو نوجوانوں سے قریب کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ بانی پاکستان کے کردار میں گاندھی جیسی پنچ لائنز تو نہیں لیکن ان کی شخصیت کے سنجیدہ اور بے باک پہلو دیکھنے والوں کو تالیاں بجانے پر مجبور کررہے ہیں۔

محمد علی جناح کا کردار نبھانے والے عمر قاضی ایک پروفیشنل تھیٹر آرٹسٹ ہیں اور بین الاقوامی سطح پر بھی پرفارم کر چکے ہیں البتہ پاکستان میں یہ ان کی پہلی تھیٹر پرفارمنس ہے۔

 جیو ڈیجیٹل کو دیے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وائس نوٹ کے ذریعے انہیں اس کردار کے لیے سلیکٹ کیا گیا، جناح کے کیریکٹر کے لیے ایک ایسے ایکٹر کی تلاش تھی جو برٹش ایکسنٹ بولنے پر مہارت رکھتا ہو۔

عمر کے مطابق ان کو کاسٹ کرنے کی یہ سب سے بڑی وجہ تھی، انہوں نے اس کردار کے لیے نہ کوئی فلم دیکھی اور نہ کمرے میں بند رہ کر تیاری کی، البتہ ڈائریکٹر کی طرف سے دکھائی گئی ریفرنس ویڈیو کو دیکھ کربرٹش ایکسنٹ میں گفتگو کرنے کی کوشش کی تھی۔

 پلے میں ان کی گفتگو،قائد اعظم کی طرح اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کا انداز متاثر کن ہے جب کہ آخر میں کی جانے والی تقریر بھی دیکھنے والوں کی داد سمیٹتی دکھائی دے رہی ہے۔

ڈرامے میں ایک ہی فرد نے 2 سے 3 کردار بھی ادا کیے ہیں جو بظاہر دکھنے میں تو مختصر ہیں لیکن ان کو نبھانے کے لیے ہفتوں محنت کی گئی ہے ۔

 تھیٹر آڑٹسٹ سرفراز رضوی اور عبدالصمد آزاد نے سیاسی جماعتوں کے کارکن، فوجی جوان اور چند اور کردار ادا کیے ہیں۔

 فنکاروں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ انور مقصود کی کہانی کا حصہ بننے پر پریشر بھی تھا لیکن خوشی بھی بہت محسوس ہوئی جب کہ ان کرداروں کو بنھانے کے لیے آواز کھلنے کی ایکسرسائز، یوگا اور پریکٹس ہفتوں پہلے شروع کی گئی تھی۔

دیکھنے والوں کا خیال ہے کہ ہر فنکار نے اپنے کردار کو بخوبی نبھایا ہے لیکن انور مقصود کے منفرد انداز اور مکالموں نے ڈرامے کو 4 چاند لگادیے ہیں۔

نامور مصنف کے فینز ساڑھے 14 اگست کو مناسب تحریر قرار دے رہے ہیں۔