سوئزرلینڈ: پانی سے چلنے والی حیرت انگیز کاغذی بیٹری تیار کی گئی ہے جسے ایک مرتبہ استعمال کرکے تلف کیا جاسکتا ہے جس سے برقی کچرے کے ارتکاز کو عالمی سطح پر کم کیا جاسکتا ہے۔
مختلف خواص کی بنا پر اسے طبی مقاصد اور عارضی طور پراستعمال کیا جاسکتا ہے جو حیاتیاتی طور پر مکمل طور پر گھل کر ختم ہوجاتی ہے۔ کم خرچ بیٹری کو ماحول دوست اجزا سے ہر جسامت اور قوت کی بیٹری بنائی جاسکتی ہے جبکہ ابتدائی تجربات میں ایک کاغذی بیٹری نے پینسل سیل کے برابر بجلی خارج کی ہے۔
سوئس فیڈرل لیبارٹری برائے مٹیریئل سائنس و ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں کی کاغذی بیٹری چھوٹے آلات اور سینسر کو بجلی ضرور فراہم کرسکتی ہے جسے کاغذ پر چھاپہ گیا ہے جس کا تکنیکی نام ’ میٹرل ایئر الیکٹروکیمیکل سیل‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ جست (زنک) دھات کو بطور اینوڈ استعمال کرتا ہے اور گریفائٹ کو بطور کیتھوڈ لگایا گا ہے۔ دونوں کو الگ کرنے کے لیے درمیان میں کاغذ لگایا گیا ہے جس میں پانی ڈال کر بطور الیکٹرولائٹ استعمال کیا جاتا ہے۔
بیٹری کا کاغذ سوڈیئم کلورائیڈ کے محلول میں ڈبویا گیا تھا اور رقبہ صرف ایک مربع سینٹی میٹر ہے۔ اس پر روشنائی بھی چھاپی گئی ہے جن میں سے گریفائٹ کے چھلکے نما ذرات ہیں جو کیتھوڈ (مثبت سرے) کی طرح کام کرتے ہیں اور دوسری سائڈ پر جست کا سفوف لگا ہے جو مثبت اینوڈ بناتا ہے۔
تیسری روشنائی (اِنک) گریفائٹ پپڑیوں اور کاربن بلیک پر مشتمل ہے جنہیں دونوں جانب پچھلی دو روشنائیوں پر چپکایا گیا ہے ۔ اس طرح ان سے تار جوڑے گئے جو کاغذ تک جارہے تھے اور کاغذ کو پھر موم میں ڈبویا گیا تھا۔ پھر صرف دو قطرے پانی ٹپکایا گیا تو کاغذ کی سطح پر موجود نمک گھل گیا اور چارج پیدا ہوا جو آگے بڑھنے لگا۔ اس طرح الیکٹران کا بہاؤ شروع ہوا اور چھوٹے آلے کو اس بجلی سے چلایا گیا۔
اس طرح ہموار انداز میں 1.2 وولٹ بجلی پیدا ہوئی جو ایک پنسل سیل کے برابر ہے پانی ملانے کے بعد کاغذ کی بیٹری سے 20 سیکنڈ تک بجلی خارج ہوتی رہی۔ اصافی پانی ڈالنے سے بجلی کی مقدار کم ہوکر نصف وولٹ ہوگئی لیکن اس کا دورانیہ دو گھنٹے تک رہا یعنی مسلسل دو گھنٹے کاغذی بیٹری چلتی رہی۔
اسی تجربے کی بنا پرصرف ایک مرتبہ استعمال ہونے والی سادہ بیٹریاں بنائی جاسکیں گی۔