اگر آپ کا الٹرا ساؤنڈ کبھی نہیں ہوا تو یہ علم نہیں ہوگا کہ یہ ہوتا کیسے ہے۔
اس کے لیے آپ کو اسپتال یا ڈاکٹر کے پاس جانا ہوتا ہے جہاں ایک تربیت یافتہ سونو گرافر ایک مشین سے آپ کے جسم کو اسکین کرتا ہے۔
مگر اب یہ مشین ماضی کا قصہ بننے والی ہے کیونکہ امریکا کے میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی نے ایسی ڈیوائس تیار کرلی ہے جس کے بعد الٹرا ساؤنڈ کے لیے کہیں بھی جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
یہ ایک ڈاک ٹکٹ کے حجم کی ڈیوائس ہے جسے جلد پر کسی بینڈیج کی طرح چپکانا کافی ہوگا جس کے بعد آپ اپنے جسم کے اندرونی اعضا کو خود دیکھ سکیں گے۔
اس حوالے سے تحقیقی مقالہ جرنل سائنس میں شائع ہوا جس میں بتایا گیا کہ اس سے وئیر ایبل امیجنگ کے نئے عہد کا آغاز ہوگا اور اندرونی اعضا کو دیکھنا آسان ہوجائے گا۔
محققین نے بتایا کہ جسم کے مختلف حصوں میں اس ڈیوائس کو لگانا ہوگا جو موبائل فون سے رابطے میں رہے گی، جہاں الگورتھم تصاویر کا تجزیہ کرسکے گا۔
اس سے قبل بھی سائنسدان اس طرح کی وئیر ایبل الٹرا ساؤنڈ ڈیوائس تیار کرنے کی کوشش کرچکے ہیں مگر کامیابی نہیں ہوسکی۔
محققین نے بتایا کہ ماضی میں ڈیوائسز کو مختلف مسائل کا سامنا ہوا تھا مگر ہم نے نئے ڈیزائن میں ان مسائل کو دور کردیا ہے، جبکہ یہ ڈیوائس جسم کے اندرونی حصوں کی زیادہ صاف تصاویر لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ابھی جو ڈیوائس تیار کی گئی ہے اسے طبی آلات سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے جو آواز کی لہروں کو تصاویر میں بدلنے کا کام کرتی ہیں۔
تحقیقی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ڈیوائسز وائرلیس ہونی چاہیے اور اس حوالے سے کام بھی شروع ہوچکا ہے۔
ڈاک ٹکٹ کے حجم کی اس ڈیوائس سے محققین لوگوں کے مختلف اندرونی اعضا کو دیکھنے میں کامیاب رہے۔
اس ڈیوائس کے لیے تحقیقی ٹیم ایک اے آئی سسٹم کو بھی تیار کررہی ہے جو تصاویر کی زیادہ بہتر وضاحت کرسکے گا۔
تحقیقی ٹیم کو توقع ہے کہ مستقبل قریب میں یہ ڈیوائس عام میڈیکل اسٹورز میں دستیاب ہوسکے گی اور لوگ اپنی بیماریوں کی مانیٹرنگ خود کرسکیں گے۔