کھانے کی چیزوں کا ایک شور تھا، سب اپنی پسند کے پکوان کی جانب بڑھ رہے تھے، نت نئی ترکیبوں اور طریقوں سے سجے بنے پکوان ذائقے میں کیسے تھے یہ تو کھانے کے بعد ہی پتا چلنا تھا لیکن ظاہری طور پر ان کی بناوٹ اور سجاوٹ خوب تھی، گوشت کے نت نئے پکوان اور چاولوں کی نئی چھب اسے پردہ پلاؤ کہتے ہیں، سمجھ میں نہیں آیا کہ بظاہر پراٹھے سے ڈھکی اس ٹرے کے نیچے چاول ہوں گے یا کچھ اور۔
ہمارے ہاں کھانے پینے کے مراکز کھلتے جا رہے ہیں، لوگوں میں اس کا شوق بڑھتا ہی جا رہا ہے، فوڈ اسٹریٹ کے نام پر سڑکوں پر دعوت ہے لیکن اس کا بل آپ کو اپنی ہی جیب سے ادا کرنا ہے، ہم فطرتاً ایسے تو نہیں ہیں لیکن ہمارے اندر ارد گرد کے ماحول سے یہ سب کچھ جذب ہوتا جا رہا ہے۔
فلاں فوڈ کورٹ میں مل جانا اور اس مل جانے کے بعد انتہائی مرغن پنیر سے بنے پیزا، یہ سب کیا ہماری صحت کے لیے مفید ہے؟
’’میڈم! آپ کون سا ڈرنک لیں گی؟‘‘ ویٹر انتہائی انہماک سے نوٹ بک پر سب کی پسند کے ڈرنکس درج کرتا جا رہا تھا۔
’’کوئی نہیں۔‘‘
’’آپ ڈرنک نہیں لیں گی؟‘‘ سوال پھر پوچھا گیا تھا جیسے یہ تہذیب کے برخلاف کوئی بات ہو۔ لہٰذا دوبارہ اسی انداز سے جواب دیا گیا۔
’’نہیں۔‘‘
ان کے گھر میں کولڈ ڈرنکس کا بہت استعمال ہوتا تھا، ہر طرح کی کولڈ ڈرنکس گویا بچوں، بڑوں اور مہمانوں کی خاطر لا لا کر ڈھیر کیے جاتے تھے، گھر میں جب تعیشات دستیاب ہوں تو بے دریغ استعمال کیا ہی جاتا ہے ایسا ہی کچھ ان کے گھر میں بلکہ ہمارے یہاں بہت سے گھروں میں ایسا ہو رہا ہے۔ بچوں کو پیاس لگتی، تیز چلچلاتی دھوپ دیکھ کر ٹھنڈا پانی تو اچھا تھا ہی لیکن یخ بستہ کولڈ ڈرنکس کا مزہ ہی الگ ہے۔
نہ کوئی روک ٹوک، لہٰذا پانی کی جگہ کولڈ ڈرنک لیتا، ابھی اس کی عمر بیس اکیس برس ہی کی تھی جب اچانک اسے پیٹ میں کچھ گڑبڑ محسوس ہوئی، گھر والوں نے اور خود اس نے بھی اسے عام پیٹ کی بیماری سمجھا جیساکہ ہو ہی جاتی ہے لیکن جب اسے کھانے پینے میں مسائل پیش آئے تو سنجیدہ جان کر اسپتال لے کر دوڑے کیونکہ خون کی الٹی نے سب کو پریشان کردیا تھا، یہ سب کچھ اچانک ہی ہوا تھا، چیک اپ کے بعد ڈاکٹرز کا خیال تھا کہ شاید وہ منشیات یا الکحل لینے کا عادی ہے، لیکن جب انھیں بتایا گیا کہ وہ بچہ ایسا کچھ نہیں کرتا تو دونوں جانب حیرانگی بڑھی، کیونکہ اس بچے کا معدہ، سادہ الفاظ میں گل رہا تھا۔
وقت تو گزر ہی جاتا ہے اور وہ تین دن گزر ہی گئے، اس کے بعد اس کی سانسیں بند ہوگئیں۔ ایک جیتا جاگتا، کھیلتا کودتا، پڑھتا لکھتا لڑکا منشیات یا کسی اور نشے کی نہیں پینے کے ایک سوفٹ ڈرنک کا شکار ہو گیا جسے اس نے اپنی زندگی میں پانی پر اہمیت دی تھی۔
کھانے پینے کی اشیا کے کاروبار میں بہت پیسہ ہے کیونکہ کھانے والے مزے دار، چٹ پٹی اور کرسپی چیزیں کھانا پسند کرتے ہیں جو کڑاہی بھر بھر کے تیل میں تلی بھی ہوں۔ یہ سب نوش کرنے کے بعد ایک پرانا خیال کہ اب جو پیٹ بھر کر کھایا ہے اسے چٹکی بجاتے ہضم بھی تو کرنا ہے، اس کے لیے ایک سوڈے کی بوتل تو درکار ہو گی اور یوں ہم بوتلوں پر بوتلیں ڈکار لیتے ہیں۔
آج ہر دوسرا شخص کولیسٹرول، بلڈپریشر، شوگر، گھٹنوں میں درد کا شکار نظر آتا ہے اور اس کی وجہ وہ عادات ہیں جو ہم اختیار کرچکے ہیں ہم بڑے بڑے ریسٹورنٹس میں جا کر وہاں کا اعلیٰ کھانا کھا کر مطمئن ہوتے ہیں اور ہزاروں روپے پھونک آتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ہم اپنی صحت کا سودا کرکے آئے ہیں، اس طرح کے کھانے ہمارے جسم میں زہر آلود بیماریاں پیدا کرتے ہیں، کولڈ ڈرنکس کے نام پر مثانے کا کینسر، بلڈ پریشر، شوگر اور گھٹنوں اور جوڑوں کے درد خریدتے ہیں۔
سموسے، نوڈلز، بازاری پراٹھے اور روٹیاں، نان جو یقینا کھانے میں بڑے ذائقے دار لگتے ہیں لیکن میدے سے بنی تمام مصنوعات انسانی جسم کے لیے خطرناک ہیں۔ میدہ جو دراصل گندم کے آٹے سے نکلا انتہائی باریک جز ہے ، اس میں قدرتی اجزا کو نکال دیا جاتا ہے، اسی لیے اس میں فائبر کی مقدار کم ہوتی ہے۔ یہ انسولین کی سطح کو بڑھا دیتا ہے جس سے انسان شوگر میں مبتلا ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر ایسے مریضوں کو گندم کے آٹے کی تجویز دیتے ہیں، اسی طرح یہ دل کی باریک رگوں کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اس میں صحت کے حوالے سے وہ تمام قدرتی اجزا یوں سمجھ لیں کہ دیکھنے کے لیے ہوتے ہیں اور کیلوریز اتنی زیادہ جو ہمارے وزن بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فاسٹ فوڈز اور سوفٹ ڈرنکس کی زیادتی سے انسانی جسم کی ہڈیوں سے کیلشیم کا اخراج شروع ہو جاتا ہے، جس کے سبب جوڑوں کا درد اور آرتھرائٹس ہو جاتا ہے۔کھانا پینا بقر عید کے دنوں میں کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتا ہے، ایسے میں یاد رکھیے کہ ہمیں کیا بتایا گیا ہے، کیا احکامات ہیں، کس طرح کھانا ہے اور کب کھانا ہے۔
ایسے کیسے ہو جاتا تھا کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گندم کی موٹی روٹی کچھ گوشت، دو کھجوریں، ٹھنڈا پانی، دودھ کا ایک پیالہ اور پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی بیمار نہیں ہوتے تھے۔ آج ماہرین ہمیں بڑے بڑے تجربات و مشاہدات اور رپورٹیں بنا بنا کر پیش کرتے رہتے ہیں اور ہمارے پاس تو بہت پہلے سے ہی ڈائیٹ پلان موجود تھا ،پر ہم نے شاید اس پر توجہ نہ دی تھی شاید اب توجہ دینی ہی چاہیے۔ کیا خیال ہے،اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔