121

شاعر شیون رضوی کے امر فلمی گیت (پہلا حصہ)

مشہور شاعر شیون رضوی سے میری ایک بھرپور ملاقات لاہور کی فلم انڈسٹری میں اس وقت ہوئی تھی جب میں بھی فلمی نغمہ نگاروں کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔ شیون رضوی نے بطور فلم ساز و ہدایت کار لاہور میں ایک فلم ’’میری زندگی ہے نغمہ‘‘ شروع کی تھی اور اس فلم میں رنگیلا کے ساتھ اداکارہ سنگیتا کو ہیروئن کاسٹ کیا تھا میں ان دنوں لاہور میں فلمی ہفت روزہ ’’نگار‘‘ سے بھی وابستہ تھا اور ’’نگار‘‘ کے لیے لاہور سے فلمی مضامین اور فلمی شخصیات کے انٹرویوز بھی بھیجا کرتا تھا۔

اس سے پہلے کہ میں شیون رضوی کی لاہور اور کراچی کی فلمی سرگرمیوں سے متعلق تفصیل سے بیان کروں میں شیون رضوی کی ابتدائی زندگی اور بمبئی کی فلمی سرگرمیوں کا تذکرہ کروں گا۔ یہ 1945 کا دور تھا فلم ساز و ہدایت کار شوکت حسین رضوی نے فلم ’’زینت‘‘ کا آغاز کیا تھا۔ فلم کی ہیروئن گلوکارہ و اداکارہ نور جہاں تھی اور فلم کے ہیرو کرن دیوان تھے اور ’’زینت‘‘ کی موسیقی حفیظ خان کے سپرد کی تھی۔ وہ اس زمانے کے ایک جید موسیقار تھے اس فلم کے گیت تین شاعروں نے لکھے تھے ان میں قمر جلال آبادی، نخشب جارچوی اور شیون رضوی شامل تھے۔ اس فلم میں شیون رضوی نے اپنا پہلا فلمی گیت لکھا تھا اور فلم کی کہانی کی مناسبت سے وہ بڑا ہی درد بھرا گیت تھا جس کے بول تھے:

آندھیاں غم کی یوں چلیں باغ اجڑ کے رہ گیا

سمجھے تھے آسرا جسے وہ بھی بچھڑ کے رہ گیا

اس گیت کو میڈم نور جہاں نے بھی بہت ڈوب کر گایا تھا اور یہ گیت فلم کی ہائی لائٹ تھا۔ فلم ریلیز ہوئی گیت سپر ہٹ ہوا اور شیون رضوی کی شہرت کا آغاز اسی گیت سے ہوا تھا۔ پھر اس گیت کی گونج اس وقت اور گہری ہوگئی تھی جب 1947 میں ہندوستان کا بٹوارا ہوا، اور پاکستان عالم وجود میں آگیا تھا۔

مگر ہندوستان کی تقسیم نے سارے ہندوستان میں بربادی کی داستان لکھنی شروع کردی تھی۔ ہر شہر میں ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے تھے اور ہندوستان کی بربادی کا نوحہ بن کے شیون رضوی کا گیت پھر سے منظر عام پر آگیا تھا:

آندھیاں غم کی یوں چلیں باغ اجڑ کے رہ گیا

فلم ’’زینت‘‘ کے بعد شیون رضوی نے کئی فلموں کے لیے گیت لکھے ان میں فلم تھی ’’میرے بھگوان‘‘ اور دوسری فلم تھی ’’لکیریں۔‘‘ فلم لکیریں کا ایک گیت گلوکارہ گیتا رائے نے گایا تھا جس کے بول تھے:

امبوا کی ڈال پہ کوئیلیا گائے

لیکن یہ دونوں فلمیں کچھ زیادہ کامیاب نہ ہوسکی تھیں۔ اسی دوران ایک فلم ’’خدا کا بندہ‘‘ کے لیے شیون رضوی نے گیت لکھے جس میں گیتا رائے (بعد کی گیتا دت) ہی کی آواز میں ایک گیت کو بڑی شہرت ملی تھی جس کے بول تھے:

نیا نیا چاند نئی نئی رات ہے

نیا نیا پیار ہے نیا نیا ساتھ ہے

اس فلم کے موسیقار ایس۔این ترپاٹھی تھے مگر یہ فلم بھی بزنس کے اعتبار سے کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکی تھی مگر شیون رضوی کے لکھے ہوئے گیتوں کو شہرت ملتی جا رہی تھی۔ اسی دوران ایک فلم ’’الہلال‘‘ میں شیون رضوی کی لکھی ہوئی ایک قوالی نے سارے ہندوستان میں ایک دھوم مچا دی تھی یہ قوالی اس دور کے مشہور قوال اسمٰعیل آزاد نے گائی تھی۔ قوالی کے بول تھے:

ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے

کالے کالے بالوں نے گورے گورے گالوں نے

اس قوالی کی مقبولیت نے سارے ہندوستان کو اپنی طرف راغب کرلیا تھا۔ شہر شہر، گاؤں گاؤں اس قوالی نے اپنا رنگ جما دیا تھا اور اس قوالی کے ریکارڈز نے کامیابی کے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے اس قوالی کی گونج ہندوستان کے کونے کونے میں پہنچ گئی تھی اور اسمٰعیل آزاد قوال کے بھی خوب وارے نیارے ہوگئے تھے اس وقت ہندوستان میں اسمٰعیل آزاد قوال کا بڑا نام ہوا تھا اس قوالی کی بدولت فلم ’’الہلال‘‘ نے بھی کامیابی کے ریکارڈ قائم کیے تھے۔

فلم ’’الہلال‘‘ کے بعد ایک اور مسلم سوشل فلم ’’میرا اسلام‘‘ بھی سپرہٹ ہوئی تھی جس میں شیون رضوی کے گیتوں کا بڑا دخل تھا اس فلم کا ایک ڈویٹ گلوکارہ آشا بھوسلے کے ساتھ غزل سنگر طلعت محمود نے گایا تھا جسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی، گیت کے بول تھے:

آ حسیں چاند ستاروں کا واسطہ آجا

دھڑکتے دل کے اشاروں کا واسطہ آجا

اسی دور کی ایک اور مسلم سوشل فلم ’’عالم آرا‘‘ کے گیتوں کے ساتھ ایک بار پھر ایک قوالی بڑی مشہور ہوئی تھی جس کے بول تھے:

بگڑی مری بنا د و ، اجمیر والے خواجہ

غم سے مجھے چھڑا دو، اجمیر والے خواجہ

یہ قوالی پچھلی قوالی کی طرح بڑی مشہور ہوئی تھی اور پھر خواجہ صاحب کے عرس کے موقع پر ہر سال بڑے اہتمام کے ساتھ مختلف قوال اسے گایا کرتے تھے۔ شیون رضوی نے فلموں میں ہر طرح کے گیت، غزلیں، نعتیں، سلام اور قوالیاں لکھیں جنھیں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی ،یہ شیون رضوی کی کامیابی کا دور تھا۔ اس دور کے بہت سے فلم ساز و ہدایت کار شیون رضوی کے گیتوں کے دیوانے تھے۔ اسی زمانے میں فلم ساز ایس مکھرجی کی فلم ’’ایک مسافر، ایک حسینہ‘‘ کے گیتوں نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی اور خاص طور پر محمد رفیع کا گایا ہوا ایک گیت بڑا امر ہوا تھا جس کے بول تھے:

ہم کو تمہارے عشق نے کیا کیا بنا دیا

جب کچھ نہ بن سکا تو تماشا بنا دیا

اور اس فلمی گیت کو تو ادبی حلقوں میں بھی بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی اور پھر یہ گیت بھی اس دور کے قوال لے اڑے تھے۔     (جاری ہے۔)