جنگ عظیم میں ایک فوجی گروہ کے پاس درد دور کرنے والی ادویہ کی قلت ہوگئی۔ فوج کی طبی قیادت نے بےچینی پھیلنے کے خوف سے اس قلت کا اظہار نہیں کیا۔ قیادت نے خاموشی سے دواؤں کی جگہ مریض فوجیوں کو درد دور کرنے کےلیے دوا کی بوتل میں پانی دینا شروع کردیا۔ بہت کم لوگوں نے دوا کے اثر نہ کرنے کا شکوہ کیا جبکہ بڑی تعداد مطمئن رہی اور پانی کو دوا سمجھ کر استعمال کرتی رہی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ دوائیں کیسی ہیں تو انھوں نے درد دور ہونے اور دواؤں کے مؤثر ہونے کی گواہی دی۔ وہ پانی کو دوا سمجھ کر پی رہے تھے اور ان کی سوچ ان کے درد سے لڑ رہی تھی۔ قدرت اپنا کام کر رہی تھی۔ دوا کھائیں یا پانی پیئیں، اگر دوا کے نام سے دی جائے تو اس کا مؤثر ہونا ایک حیرت انگیز سوال تھا۔ اس سوال کا جواب نفسیاتی ردعمل کی قوت اور دوا سے منسوب خواص کی کمزوری کی مستند گواہی دیتا ہے، جسے طبی علوم میں پلے سیبو اثرات سے پہچانتے ہیں۔
یہ بہترین طریقہ ہے دواؤں کی تحقیق میں اثرات کو جانچنے کا۔ ایک گروہ کو پلے سیبو (پانی یا بے ضرر چیز) اور دوسرے گروہ کو دوا دی جاتی ہے۔ اگر دونوں کے اثرات ایک جیسے ہوں تو اس کا صاف مطلب ہے کہ دوا میں اثر نہیں۔ اثرات کا سچا اور گہرا مشاہدہ ہی کامیابی کے راستے کھولتا ہے۔ دھندلاہٹ، مفروضے اور سائنسی افسانے کا انجام فائدہ مند نہیں بلکہ کبھی کبھی ہولناک نقصان کا باعث ہوتا ہے۔
Advertisement
افسردگی ایک نفسیاتی بیماری کے طور پر دیکھی اور سمجھی جاتی ہے۔ افسردگی اور اس سے متعلقہ ذہنی صحت کی حالتوں کی وجہ سیروٹونین کی کم سطح کو سمجھا جاتا ہے۔ سیروٹونین ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے، یعنی ایسا کیمیکل جو اعصابی اکائیوں کے درمیان پیغامات رسانی کرتا ہے۔ سیروٹونین کے افسردگی سے تعلق کو سائنس نصف صدی سے واضح طور پر جوڑتی آئی ہے۔ برسہا برس سے لوگوں کو یہی یقین دلایا جاتا رہا کہ ذہنی تناؤ دراصل دماغ میں کیمیائی عدم توازن یا سیروٹونین کی کمی کی وجہ سے ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ادویہ کے زیر اثر سیروٹونین کو بڑھا کر افسردگی پر قابو اور جذباتی ردعمل کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے۔
ان خیالات کو پروان چڑھانے میں لاکھوں مقالے دنیا بھر میں شائع ہوئے۔ اسی مفروضے کے سہارے ہزاروں لوگوں نے اپنی تحقیق مکمل کی اور ادویہ ساز کمپنیوں نے اپنی مصنوعات درست ثابت کرنے کےلیے ان مفروضات کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ دنیا بھر کے ڈاکٹروں کی تربیت اور مشق کے ذریعے اسے برقرار رکھا۔ گزشتہ کئی دہائیوں میں ایس ایس آر آئی گروپ کی کئی ادویہ بازار میں آئیں۔ صبح، دوپہر، شام مزے مزے کے اشتہارات پوری دنیا میں ٹی وی، ریڈیو پر چلے، اخبارات اور رسائل میں شائع ہوئے۔ اربوں ڈالرز کی ماہانہ تجارت ہوئی۔ پاکستان بھی پیچھے نہ رہا۔ یہاں بھی سیکڑوں ادویہ ساز کمپنیاں یہ دوائیں بناتی رہیں۔ ماہر نفسیات تو ایک طرف، عام ڈاکٹر بھی یہ ادویہ تجویز کرتے رہے۔ خوب سیل اور سائنسی کانفرنسیں ہوئیں۔ دنیا بھر کی سیر کی گئی۔ ڈاکٹروں نے دنیا بھر میں اپنے مشاہدات پڑھے۔ آج اس وقت بھی کروڑوں لوگ کئی دہائیوں سے ان ادویہ کو استعمال کررہے ہیں۔ کروڑوں نسخے ماہانہ دنیا بھر میں لکھے جارہے ہیں۔
ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دواؤں کے کچھ مضر اثرات ہوتے ہیں اور ان دواؤں کے مضر اثرات میں خودکشی کرنے کی خواہش نمایاں ہے۔ نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ افسردگی کی ادویہ ایس ایس آر آئی (اینٹی ڈپریسنٹس) کو جواز فراہم کرنے والا نظریہ محض ایک افسانہ ہے۔ کیمیائی عدم توازن کا افسردگی سے تعلق ایک بے بنیاد مفروضہ ثابت ہورہا ہے۔ یہ افسانہ 35 سال سے زیادہ پہلے فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کو درست ثابت کرنے کےلیے تخلیق کیا تھا۔
ڈپریشن اور سیروٹونین کے درمیان روابط کے بارے میں اب تک کی گئی تحقیق کے سب سے جامع گہرے منظم جائزے میں برطانیہ، اٹلی اور سوئٹزرلینڈ کے محققین نے 17 بڑے بین الاقوامی سائنسی جائزوں کو دیکھا، جنہوں نے 3 لاکھ مریضوں پر مشتمل 260 سے زائد مطالعات کے نتائج کو دستاویزی شکل دی۔ اس کے مطابق سیروٹونین اور افسردگی کے مابین تعلق کی سچائی ثابت نہیں ہوتی۔ ایسے ہی ایک مربوط گہرے مستند جائزے نے سیروٹونین اور افسردگی کے درمیان تعلق کے نظریے کو رد کیا اور قابل اعتماد شواہد سے مفروضے کی نفی کی۔ آج جب ہم مڑ کر دیکھتے ہیں تو مٹھی سے ریت نکلتی محسوس ہوتی ہے۔ ہوائی اور خلائی نقطوں پر قائم ہوئی عمارت ہمارے علم اور معلومات کے درمیان خلیج کی چوڑائی بتاتی ہے۔
پریشانی یہ ہے کہ ایجاد کرنے والوں نے اپنے تحقیقی اعداد و شمار میں کہاں کہاں دانستہ اور کم علمی میں غلطیاں کیں۔ کہاں کہاں شواہد کے اشاروں کو نظر انداز کیا۔ سرکاری حکام نے تحقیق کو جانچنے اور پرکھنے میں کوتاہی کیسے کی؟ ابھرنے والے نتائج نے سائنسی تحقیقی نظام، دوا منظور کرنے کے طریقہ کار اور سب سے اہم مریضوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ڈاکٹرز، جو ان ادویہ کو فائدہ مند سمجھتے رہے ان کے مشاہدات کی اہلیت پر بڑا سوال کھڑا کردیا ہے۔ ویسے ہی عام مشاہدات طبی علوم میں وجوہات اور اثرات کے درمیان تعلق ثابت کرنے کےلیے مضبوط شواہد فراہم کرنے میں کمزور نظر آتے ہیں۔ زمینی حقائق کو جھٹلانے اور من مانے طریقے سے تحقیق کے نتائج دیکھنے کا یہ سلسلہ تباہی کے دہانے تک پہنچ چکا ہے۔ اعتماد چکناچور اور امید بوجھل نظر آتی ہے۔ ضرورت تحقیق کے طریقہ کار کو مضبوط بنانے، سچائی کی گواہی کو مقدم جاننے، ناپنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنے، محسوس کرنے کی اہلیت بڑھانے میں ہے۔
یہ جاننا پڑے گا کہ ہم کیا نہیں جانتے اور کیوں نہیں جانتے۔ جو جانتے ہیں وہ کیسے جانتے ہیں۔ کتنا جانتے ہیں۔ کیا جانتے ہیں اور کیا سمجھتے ہیں۔ کیا جانتے ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں۔ کیا سمجھتے ہیں مگر جانتے نہیں۔ کیا سمجھتے بھی نہیں، جانتے بھی نہیں۔ تحقیق کا طریقہ کار کتنا حساس اور کتنا قابل اعتماد ہے۔ وجوہات اور اثرات کے درمیان تعلق کے ثبوت کتنے مضبوط ہیں۔ زمینی حقائق کو جھٹلانے اور من مانے طریقے سے اپنی خواہش کے مطابق نتائج عکس کرنے کا سلسلہ ایمانداری کا بحران پیدا کرچکا ہے۔ تباہی کو روکنے کےلیے سچائی کی گواہی مجھ پر، آپ پر اور ہم سب پر فرض ہے۔
(نوٹ: دوائیں ڈاکٹر کی تجویز پر استعمال کریں۔ دوائیں ڈاکٹر کی مرضی سے ترک کریں۔ نہ ازخود تجویز کریں، نہ ازخود ترک کریں۔ دواؤں کے متعلق بھرپور معلومات حاصل کریں۔ ڈاکٹر سے، فارماسسٹ سے اپنی دوا کے متعلق سارے جوابات حاصل کریں۔ کسی صورت لاعلم نہ رہیں۔)