52

کائناتی تحقیق کے لیے 64 ریڈیائی دوربینوں کو یکجا کردیا گیا

جنوبی افریقا: تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک دو نہیں بلکہ 64 ریڈیائی دوربینوں کی قوت ایک ساتھ ملائی گئی ہے۔ اس کا مقصد عمومی طور پر کائنات کے رازوں کو افشا کرنا، ارتقا کو سمجھنا ہے تو بالخصوص دور بہت دور موجود نیوٹرل (چارج کے بغیر) ہائیڈروجن گیس کا پتا لگانا ہے جو بہت ہی نحیف آثار رکھتی ہے۔

اس کاوش میں ممتاز ماہرینِ فلکیات کی ٹیم شامل ہے جنہوں نے جنوبی افریقہ میں واقع میرکاٹ دوربین کی 64 ڈشوں کو ایک کیا ہے۔ اسے ترقی دے کر دنیا کی سب سے بڑی ریڈیائی دوربین بنایا جائے گا جس ایس کے اے آبزوریٹری (ایس کے اے او) کا نام دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ اس کا پورا نام اسکوائر کلومیٹر ایرے آبزرویٹری ہے۔ اس منصوبے سے 20 ممالک کے 500 انجینیئر اور سینکڑوں ماہرین وابستہ ہیں۔ مختلف علاقوں میں 64 کے قریب ریڈیائی دوربینیں ہیں۔ اس کا اہم مقصد کائنات کی وسعت پر بڑے پیمانے پر تحقیق کرنا ہے۔ اس پیمانے پر بڑی کہکشاں بھی ایک نقطے کی مانند نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ تاریک مادے اور خود کائنات میں ثقلی قوت پر تحقیق کو مدِنظر رکھا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ریڈیائی دوربینیں چونکہ ریڈیو امواج پر کام کرتی ہیں وہ 21 سینٹی میٹر طول موج (ویو لینتھ) کو دیکھ سکتی ہیں جو نیوٹرل ہائیڈروجن سے خارج ہوتا ہے۔ یہ عنصر کائنات میں عام ہے لیکن اس کا بصری مشاہدہ کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کی تفصیلات دیکھ کر ہم کائنات میں مادے کے تقسیم اور موجودگی پر ہم تحقیق کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب کائنات کے بعید ترین گوشوں میں موجود دوردراز علاقوں کے اجسام کو بھی ریڈیائی دوربینوں سے بلند معیاری عکس کے ساتھ دیکھا جاسکت اہے۔ اس کے لیے ہم عموماً انٹرفیرومیٹر لگاتے ہیں لیکن اس ٹیکنالوجی کی اپنی حدود ہیں اور یہ اتنا حساس نہیں ہوتا کہ خاطرخواہ کائناتی رازوں کو جاننے میں مدد دے سکے۔ اسی لیے اب 64 ڈشوں کو یکجا کیا گیا ہے جسے ماہرین نے ایک انقلابی سنگِ میل قرار دیا ہے۔ توقع ہے کہ اس سے کونیاتی تحقیق میں بہت مدد ملے گی۔

اچھی بات یہ ہے کہ چار براعظموں پر موجود دیگر ریڈیائی رصدگاہوں نے بھی اس مشن میں شمولیت اختیار کی ہے اور یہ پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے۔ اس طرح سنگل ڈش ٹیکنالوجی نے اہم انکشافات بھی شروع کردیئے ہیں۔ ان میں میرکاٹ کے ریڈیائی اور اینگلو آسٹریلیئن ٹیلی اسکوپ کے بصری مشاہدات کو باہم ملایا گیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ریڈیائی دوربین کے ادغام سے ماہرین نے بہت بڑا کائناتی اسٹرکچر دریافت کیا ہے۔ اس طرح ایک سے زائد ریڈیائی دوربینوں کو باہم ملاکر یہ پہلی اہم دریافت سامنے آئی ہے۔