33

کرددوں کا ترکی سے نمٹنے کیلئے شامی فوج سے معاہدہ

دمشق/انقرہ۔شام میں کردوں کا کہنا ہے کہ شامی حکومت نے ترکی کی جانب سے ان کے خلاف جاری کارروائی کو روکنے کے لیے اپنی فوج کو شمالی سرحد پر بھیجنے پر اتفاق کیا ہے۔یہ فیصلہ امریکہ کی جانب سے شام کی غیر مستحکم صورتحال اور وہاں سے اپنی باقی تمام فوج کو نکالنے کے بعد سامنے آیا ہے۔اس سے قبل شام کے سرکاری میڈیا نے بتایا تھا کہ فوج کو شمال میں تعینات کر دیا گیا ہے۔ترکی کی جانب سے کردوں کے خلاف کی جانے والی اس کارروائی کا مقصد کرد افواج کو اس سرحدی علاقے سے نکالنا ہے۔ برطانیہ میں قائم سیرین آبزرویٹری برائے ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کے مطابق کم از کم 50 شہری اور 100 سے زیادہ کرد جنگجو ہلاک ہو گئے ہیں۔واضح رہے کہ ایس ڈی ایف اس علاقے میں امریکہ کی حریف رہی ہیں۔

ترکی نے کردوں کی زیرِ قیادت شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے زیر کنٹرول علاقوں پر گذشتہ پانچ دنوں کے دوران شدید بمباری کی ہے جس میں دونوں جانب سے درجنوں عام شہری اور جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔ادھر اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں 130,000 سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ یہ تعداد جلد ہی تین گنا ہو سکتی ہے۔دوسری جانب کرد حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کو ترکی کی جانب سے کیے گئے حملے کے دوران شام کے شمالی علاقے میں واقع عین عیسی نامی کیمپ سے دولتِ اسلامیہ سے وابستہ سینکڑوں غیر ملکی قیدی فرار ہو گئے۔کرد حکام نے مطابق دولت اسلامیہ سے وابستہ جنگجوں کے 800 کے قریب رشتہ دار اس کیمپ سے فرار ہوئے۔عین عیسی کیمپ میں تقریبا 12,000 افراد موجود تھے جن میں 1,000 کے قریب خواتین اور بچے وہ تھے جن کے جہادی گروہوں سے تعلقات تھے۔

ایس ڈی ایف نے گذشتہ ہفتے متنبہ کیا تھا کہ اگر ترکی کی جانب سے ان کے خلاف حملے جاری رہے تو وہ دولتِ اسلامیہ کے قیدیوں کی نگرانی کو ترجیح نہیں دیں گے۔ترکی کی جانب سے بدھ کو شروع کی جانے والی ان کارروائیوں اور امریکی فوج کے انخلا کی بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے کیونکہ ایس ڈی ایف شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف جنگ میں مغرب کی اہم اتحادی رہی ہیں۔لیکن ترکی کرد گروہوں کو'دہشت گرد قرار دیتا ہے اور وہ اس علاقے میں ایک 'محفوظ زون' بنانا چاہتا ہے جہاں کردوں کا وجود نہ ہو اور جہاں ترکی آنے والے 30 لاکھ سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کو رکھا جائے۔شمالی شام میں کردوں کی زیر قیادت انتظامیہ نے کہا ہے کہ معاہدے کے مطابق شامی فوج کو پوری سرحد پر تعینات کیا جائے گا۔ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ تعیناتی ایس ڈی ایف کو اس جارحیت کا مقابلہ کرنے اور ان علاقوں کو آزاد کروانے میں مدد فراہم کرے گی جن میں ترک فوج اور کرائے کے سپاہی داخل ہوئے تھے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس اقدام سے ترک فوج کے زیر قبضہ شام کے باقی شہروں کو بھی آزاد کرانے کی راہ ہموار ہو گی۔اس علاقے میں اپنے طویل مدتی امریکی شراکت داروں کے فوجی تحفظ کو کھونے کے بعد یہ معاہدہ کردوں کے لیے اتحاد میں ایک اہم تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔واضح رہے کہ شامی حکومت اور کردوں کے درمیان یہ معاہدہ صدر ٹرمپ کی جانب سے اس خطے سے امریکی فوجیوں کو نکالنے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے جس نے ترکی کو کردوں کے خلاف کارروائی کا راستہ فراہم کیا تھا۔