آسٹریلیا: ایک نئی تجرباتی دوا کے بعد ذیابیطس سے نہ صرف خون میں گلوکوز کی کمی دیکھی گئی ہے بلکہ اس نے اضافی چربی گھلانے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔
آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کے پروفیسر مارک فیبرایو اور ان کے محقق ساتھیوں نے ٹائپ ٹو ذیابیطس کی ایک بالکل نئی دوا بنائی ہے جو ایسے سگنلنگ پروٹین خارج کرتی ہے جو ایک خاص ریسپٹر جی پی 130 سے چپک جاتے ہیں۔ یہ عمل جسم کے میٹابولزم یعنی استحالے کو بھی منظم بناتا ہے۔
ابتدا میں چوہوں کو شوگر کا مریض بنا کر ان پر دوا آزمائی گئی تو ابتدائی تجربات بہت حوصلہ افزا نکلے کیونکہ دوا نے خون میں گلوکوز کی مقدار کم کی اور ان میں موٹاپے کو بھی قابو کیا۔ تاہم اس دوا نے ہڈیوں کو نرم نہیں کیا اور نہ ہی گوشت کے پٹھوں کو کمزور کیا۔
ٹائپ ٹو ذیابیطس میں لبلبہ انسولین کی مناسب مقدار نہیں بنا پاتا اور خون میں شکر کی مقدار بڑھ کر پورے بدن اور اعضا کو نقصان پہنچاتی ہے، صرف اس وقت دنیا بھر میں 37 کروڑ سے زائد افراد ٹائپ ٹو ذیابیطس کے شکار ہیں جن کی تعداد میں خوفناک اضافہ ہورہا ہے۔
میٹ فورمِن اس کے لیے ایک مؤثر دوا ہے لیکن ایک جانب تو یہ فربہی کم نہیں کرتی اور اس کے بہت سے سائیڈ ایفیکٹس بھی ہوتے ہیں لیکن موناش یونیورسٹی کے ماہرین نے جو نئی دوا بنائی ہے اسے جب انجکشن کے ذریعے چوہوں کے دل میں داخل کیا گیا تو نہ صرف ان میں کھانے کی اشتہا کم ہوئی بلکہ چربی میں بھی واضح کمی دیکھی گئی کیوں کہ وزن کم ہونا بھی خون میں شکر کی مقدار کم کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔
اسی دوا کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے بندروں کے جگر پر چربی کم کرنے میں بھی مدد کی۔ اس طرح شوگر کی ایسی کوئی دوا نہیں جو ایک ساتھ خون میں شکر قابو کرتی ہو اور ساتھ ہی وزن بڑھانے والی چربی بھی کم کرتی ہو۔ تیسری اچھی بات یہ ہے کہ دوا کا ایک ٹیکہ پورے ہفتے کےلیے ہی کافی ہوگا۔ بہت جلد اس دوا کو انسانوں پر آزمایا جائے گا جس کےلیے ابتدائی تحقیق جاری ہے۔