لندن: سماعت میں کمی اور اس سے محرومی کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں اور اس ضمن میں ماہرین نے 44 ایسے نئے جین دریافت کیے ہیں جو ثقلِ سماعت کی وجہ بن سکتے ہیں یا مکمل بہرے پن میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس دریافت سے توقع ہے کہ سماعت سے محرومی کے علاج میں بھی مدد مل سکے گی اور ہم بہرے پن کو مزید اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔
کنگز کالج لندن اور یونیورسٹی کالج آف لندن کے ماہرین نے اس تحقیق میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کی تفصیلات امریکن جرنل آف ہیومن جینیٹکس میں شائع ہوئی ہیں۔ اس میں بتایا گیا کہ 44 جین ایسے ہیں جو عمر رسیدگی کے ساتھ ساتھ ثقلِ سماعت میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تحقیق کے لیے دونوں جامعات کے ماہرین نے 40 سے 69 سال تک کے ڈھائی لاکھ افراد کا ڈیٹا بیس حاصل کیا اور ان کا جینیاتی مطالعہ کیا۔ ان میں مکمل طور پر سماعت سے محروم اور ثقلِ سماعت کے بہت سے افراد شامل تھے۔ ماہرین نے مکمل تجزیئے کے بعد 44 جین معلوم کرلیے ہیں۔
65 سال کی عمر کے بعد سے اکثر افراد کی سماعت میں خلل واقع ہوتا ہے۔ اس سے بوڑھے افراد لوگوں کی بات نہ سننے کی وجہ سے سماجی تنہائی اور یاسیت کے شکار ہوجاتے ہیں جس سے ڈیمنشیا سمیت کئی دماغی امراض جنم لیتے ہیں۔
اگرچہ اس کا آسان حل آلہ سماعت ہے لیکن اب تک بڑھاپے اور سماعت میں کمی کی اصل وجوہ سے پردہ نہیں اٹھایا جاسکا تاہم کنگز کالج کے پروفیسر فرانسس ولیم نے بتایا کہ ان 44 میں سے کئی جین پہلے ہی بچوں میں بہرے پن کی وجہ بن سکتے ہیں لیکن پانچ ایسے نئے جین بھی دریافت ہوئے ہیں جو بزرگوں کی سماعت میں کمی کرتے ہیں۔
تمام سائنسداں اس بات پر متفق ہیں کہ ان جین کی دریافت سے بہرے پن کو دور کرنے کے اور ان کے علاج کے نئے طریقے سامنے آسکیں گے۔