69

آرام پسندی بھی صحت کیلیے نقصان دہ

بارسلونا: عمومی صحت سے متعلق ایک تازہ مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ اگر صرف دو ہفتے بھی آرام پسندی سے گزارے جائیں تو جسم پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہوجاتے ہیں جن میں دل اور پھیپھڑوں کا متاثر ہونا، موٹاپے کا بڑھنا، جسم اور جگر میں چربی کا جمع ہونا اور انسولین کے خلاف مزاحمت میں اضافہ شامل ہیں۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو پورے ہفتے تقریباً 10 ہزار قدم پیدل چلتے ہیں، اگر وہ ہفتہ وار صرف 1500 قدم پر آجائیں تو محض دو ہفتے میں ان پر منفی اثرات نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ البتہ، اچھی خبر یہ ہے کہ صحت مندانہ طرزِ زندگی بحال کرتے ہی یہ اثرات زائل ہونے لگتے ہیں اور جلد ہی وہ معمول کی صحت پر واپس آجاتے ہیں۔

یہ مطالعہ برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیورپول کی کیلی باؤڈن ڈیویز کی نگرانی میں کیا گیا جس میں 28 صحت مند رضاکار بھرتی کیے گئے۔ ان میں سے 10 مرد تھے جبکہ 18 خواتین تھیں۔ تمام رضاکاروں کی اوسط عمر 32 سال تھی جبکہ اپنے وزن کے اعتبار سے بھی وہ ’’نارمل‘‘ تھے۔

علاوہ ازیں، مطالعے میں شریک تمام رضاکار جسمانی طور پر خاصے سرگرم تھے جو ہفتے میں 10 ہزار قدم یا اس سے بھی زیادہ پیدل چلنے کے عادی تھے۔ ابتدائی تفصیلی معائنے کے بعد ان سے کہا گیا کہ وہ دو ہفتے تک اپنے چلنے پھرنے کے معمولات کم کردیں اور آرام پسندی پر مبنی طرزِ حیات اختیار کرلیں۔

دو ہفتے کے بعد جب مختلف حوالوں سے ان کا طبّی معائنہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کے دل کارکردگی 4 فیصد تک کم ہوچکی تھی، پیٹ کا گھیر 8.5 ملی میٹر تک بڑھ چکا تھا، جگر کی چکنائی میں 0.2 فیصد اضافہ ہوچکا تھا، مجموعی جسمانی چکنائی بھی 0.5 فیصد زیادہ ہوچکی تھی، انسولین کے خلاف جسمانی مزاحمت بلند ہوگئی تھی جبکہ امراضِ قلب کو بڑھاوا دینے والی ’’ٹرائی گلیسرائیڈ‘‘ (خون میں پائی جانے والی ایک قسم کی چکنائی) بھی معمولی سی بڑھ چکی تھی۔

اب ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے صحت مندانہ طرزِ زندگی پر واپس آجائیں اور پہلے کی طرح زیادہ پیدل چلنا شروع کردیں۔ مزید دو ہفتے گزرنے کے بعد جب ان کا معائنہ کیا گیا تو پتا چلا کہ آرام پسندی سے پیدا ہونے والے تمام منفی اثرات ختم ہوچکے تھے اور وہ سب کے سب اپنے معمول پر واپس آچکے تھے۔

’’ہماری تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ جسمانی سرگرمیوں میں معمولی سا اضافہ بھی کردیا جائے تو مجموعی صحت پر اس کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ہم زیادہ متحرک رہنے اور آرام پسند طرزِ حیات کو خیرباد کہنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں،‘‘ باؤڈین ڈیویز نے کہا۔

امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے ترجمان، ڈاکٹر جون اوسبورن اس تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج کو ’’کسی حد تک حیرت انگیز‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بھی اپنے مریضوں کو یہی مشورہ دیتے ہیں کہ اگر ’’آپ کو شارک یا کچھوے میں سے کوئی ایک بننے کی آزادی ہو تو شارک بننے کو ترجیح دیجیے گا؛ ہمیشہ حرکت کرتے رہیے۔‘‘

نیویارک سٹی میں نیویارک پریسبائرٹیریئن بروکلن میتھوڈسٹ ہاسپٹل میں شعبہ طب کے نائب صدر ڈاکٹر ایڈمنڈ گائیگرچ کا کہنا تھا: ’’اس مطالعے سے سرگرم رہنے کی اہمیت ایک بار پھر ثابت ہوئی ہے۔ اس سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کی آمد بھی مؤخر کی جاسکتی ہے۔‘‘ انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا: ’’کسی ریس میں دوڑنے کی ضرورت نہیں، چل قدمی بھی ٹھیک ہے… بس خود کو متحرک رکھیے۔‘‘

اس مطالعے کے نتائج ’’یورپین ایسوسی ایشن فار دی اسٹڈی آف ڈائبٹیز‘‘ کے حالیہ اجلاس میں پیش کیے گئے جو بارسلونا، اسپین میں منعقد ہوا۔