508

پاکستان میں ہائی جیکنگ کے ملزموں کی نئی تصاویر جاری

واشنگٹن ۔امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے ان چار مبینہ ہائی جیکروں کی نئی ڈیجیٹل تصاویر جاری کی ہیں جو 1986 میں پاکستان میں ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ میں ملوث تھے۔اس حملے میں دو امریکی شہری بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ان تصاویر پر کمپیوٹر کی مدد سے ایسے عمل کیا گیا ہے کہ ان لوگوں کی عمر کا فرق نظر آئے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ایف بی آئی کے ایک اہلکار نے کہا کہ یہ معاملہ ابھی تک کھلا ہے اور ایف بی آئی نے سنہ 2000 میں یہ تصاویر حاصل کی تھیں جنھیں کمپیوٹر کی مدد سے اس طرح ٹریٹ کیا گیا ہے کہ ان افراد کی شکلیں ان کی حالیہ عمر کے مطابق ہوں۔

ان اشخاص کی گرفتاری کے بارے میں معلومات دینے والے کو 50 لاکھ ڈالر انعام دیا جائے گا۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب امریکی ہوائی کمپنی پین ایم کی پرواز 73 ممبئی سے فرینکفرٹ جاتے ہوئے کراچی کے ہوائی اڈے پر رکی تھی۔ اسے ان چار افراد اور ان کے سرغنہ زید حسن سفارینی نے ہائی جیک کر کے قبرص لے جانے کی کوشش کی تھی، تاہم جہاز کا عملہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور جہاز کراچی ہوائی اڈے پر کھڑا رہ گیا تھا۔حکام کے ساتھ مذاکرات کی ناکامی کے بعد ہائی جیکروں نے جہاز کے اندر فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں 20 مسافر اور عملے کے ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔

اس دوران پاکستانی سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے حملہ آوروں پر قابو پا لیا تھا۔ان چار مشتبہ افراد کے نام ودود محمد حافظ الترکی، جمال سعید عبدالرحیم، محمد عبداللہ خلیل حسین الرحیال اور محمد احمد المنور ہیں۔ یہ فلسطینی ہیں اور مبینہ طور پر ابوندال تنظیم سے وابستہ ہیں جسے امریکی محکم خارجہ نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔پاکستان کی عدالت نے پانچ ہائی جیکروں کو مجرم قرار دیا اور انھیں عمر قید کی سزا ہوئی۔ 

ہائی جیکنگ کے سرغنہ زید حسن سفارینی کو 2001 میں امریکہ کے حوالے کر دیا گیا جہاں انھیں 160 برس قید کی سزا ہوئی۔دوسرے مجرم اپنی سزائیں کاٹنے کے بعد 2008 میں رہا کر دیے گئے تھے، جس کے بعد سے ان کا اب تک اتاپتہ نہیں ہے، تاہم ان کا نام اب تک ایف بی آئی کی 'سب سے مطلوب افراد کی فہرست' میں شامل ہے اور ادارہ انھیں پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔جمال سعید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ڈرون حملے میں مارے گئے تھے تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی اور ان کا نام ایف بی آئی کی فہرست میں بدستور شامل ہے