84

ملائیشیا میں ذاکر نائیک کے بیانات اور تقاریر پر پابندی عائد

کوالالمپور: ملائیشیا نے متنازع بیان دینے پر معروف بھارتی مبلغ اور مذہبی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ملائیشیا بھر میں بیانات اور تقاریر پر پابندی عائد کردی ہے۔

حال ہی میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ایک بیان کے دوران کہا تھا کہ ’ہندوؤں کو ملائیشیا میں اس سے 100 گنا حقوق حاصل ہیں جتنے بھارت میں مسلمان اقلیت کو ملتے ہیں‘ اس کے ساتھ انہوں نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ ’چینی ملائیشیوں کو ان سے پہلے ملک بدر کرنا چاہیے تھا‘۔

مذکورہ بیان کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائیک کو ملائیشیا سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا جارہا تھا جبکہ پولیس نے بھی اس معاملے پر ان سے تفتیش کی۔ ذاکر نائیک نے آج اپنے مذکورہ بیان پر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ان کے بدخواہوں نے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا۔

انہوں نے اس عمل کو جعل سازی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’میرا ہرگز مقصد کسی فرد یا برادری کو پریشان کرنا نہیں تھا، یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے اور میں اس غلط فہمی کے لیے دل سے معذرت خواہ ہوں‘۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ذاکر نائیک ٹیلیویژن پر آنے والے بنیاد پرست مبلغ ہیں جنہوں نے امریکا میں 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملے کو اندرونی کارروائی قرار دیا تھا۔

2016 میں وہ بھارت چھوڑ کے مسلم اکثریت والے ملک ملائیشیا منتقل ہوگئے تھے جہاں انہیں مستقل رہائش فراہم کردی گئی تھی۔ تاہم مذکورہ بیان کے بعد اب ملائیشیا کی ہر ریاست میں ان کے بیان یا تقریر پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔

پولیس نے ان کے بیانات کو قومی سیکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ملائیشیا کی ہر ریاست میں ان کے بیانات پر پابندی لگا دی ہے اور پولیس کی جانب سے اس کی باقاعدہ تصدیق کردی گئی ہے۔ 54سالہ ذاکر نائیک سے ان کے نسل پرستانہ بیان پر پولیس نے 10 گھنٹوں تک تفتیش کی جس کے بعد وہ اپنی گاڑی میں وہاں سے روانہ ہو گئے۔

سی آئی ڈی ڈائریکٹر ہوزر محمد نے بتایا کہ ذاکر نائیک سے امن کو خراب کرنے کی غرض سے باضابطہ طور پر تضحیک کرنے پر سیکشن 504کے تحت جرح کی گئی۔ اس سے قبل بھی نسل پرستانہ بیان پر ذاکر نائیک پر ملائیشیا کی 7ریاستوں میں تقاریر کرنے پر پابندی عائد تھی۔

ملائیشیا کی پولیس کے سابق سربراہ رحیم نور نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ذاکر نائیک کو مستقل رہائش کے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہوئے انہیں واپس بھارت بھیج دے۔ البتہ ذاکر نائیک کو ملک بدر کرنے کے مطالبے کے باوجود وزیر اعظم مہاتیر محمد ایسا قدم اٹھانے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

ملائیشین میڈیا کے مطابق مہاتیر محمد کو خدشہ ہے کہ اگر ذاکر نائیک کو واپس بھارت بھیجا گیا تو انہیں قتل کیا جا سکتا ہے لہٰذا وہ انہیں بھارت بھیجنے کے حق میں نہیں تاہم اگر کسی اور ملک نے انہیں پناہ دینے کی پیشکش کی تو ملائیشین وزیر اعظم اپنے فیصلے پر غور کر سکتے ہیں۔

ملائیشین حکومت چاہتی ہے کہ موجودہ صورتحال میں معروف مذہبی اسکالر خود کوئی فیصلہ کرتے ہوئے ملک چھوڑ دیں تاکہ حکومت کو ان کے ملک بھر میں ہزاروں چاہنے والوں اور عقیدت مندوں کے غم و غصے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

خیال رہے کہ مبینہ طور پر انتہا پسندی پر اکسانے اور منی لانڈرنگ کے الزامات میں ڈاکٹر ذاکر نائیک بھارت کو مطلوب ہیں اور اس سلسلے میں نئی دہلی نے گزشتہ برس ملائیشیا سے انہیں بے دخل کرنے کی درخواست بھی کی تھی جسے مسترد کردیا گیا تھا۔