69

پاکستانی ماہرین نے ذیابیطس کے زخم مندمل کرنے والی انقلابی پٹی تیارکرلی ​​​​​​​

کراچی: پاکستانی اور برطانوی ماہرین نے شکر سے ہی بنی ایسی ڈریسنگ بنائی ہے جو ذیابیطس کے مریضوں میں مندمل نہ ہونے والے زخموں کو ناسور کو ٹھیک کرکے ممکنہ طور پر انہیں اعضا کی محرومی سے بچاسکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں شکر سے بنی پٹی استعمال کی گئی ہے جو شوگر کے زخموں کو مندمل کرسکتی ہے۔

کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے لاہور کیمپس میں واقع بین الموضوعاتی تحقیقی مرکز برائے حیاتیاتی و طبی مٹیریل ( آئی آر سی بی ایم) نے برطانیہ کی شیفلڈ یونیورسٹی کے تعاون سے  اس نئی ٹیکنالوجی کی چوہوں پر کامیاب آزمائش کی ہے اور اس کے نتائج ایک اہم طبی تحقیقی جریدے میں شائع کئے ہیں۔

محققین نے پہلے دنیا بھر میں ذیابیطس کے زخموں پر عام استعمال کی جانے والی ایلجینیٹ ڈریسنگ استعمال کی۔ اس کے بعد ماہرین نے ٹو ڈی آکسی رائبوس (ٹو ڈی ڈی آر) کو اس پٹی کے پھائے پر لگایا۔ واضح رہے کہ ٹو ڈی ڈی آر ایک قسم کی شکر ہے جو زخم بھرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور تجربات سے اس کی تصدیق بھی ہوئی ہے۔ ماہرین نے پہلے چوہوں کو شوگر کا مریض بنایا اور اس کے بعد ان میں گہرائی تک زخم لگائے۔ اگلے مرحلے میں ٹوڈی ڈی آر والی ایلجینیٹ پٹی ان کے زخمو پر لگائی گئی۔ اس عمل سے ذیابطیس کے ناسور نہ صرف تیزی سے بھرے بلکہ ان میں خون کی نئی نالیاں بھی بننے لگیں جو زخم مندمل کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ رگوں کے دوبارہ بننے کا یہ عمل طبی زبان میں ’اینجیوجنیسِس‘ کہلاتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ رگوں ، شریانوں اور وریدوں میں صرف خون ہی نہیں بہتا بلکہ اس کے ساتھ بہت سے ضروری اجزا بھی ایک سے دوسری جگہ پہنچتے ہیں جو زخم مندمل کرنے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں میں خون کی باریک شریانیں بہت بری طرح متاثر ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے شوگر کے مریضوں کے زخم ٹھیک ہونے میں بہت وقت لگاتے ہیں۔ اس کی وجہ اینجیوجنیسِس کا غائب ہونا بھی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ زخم ٹھیک ہونے کی بجائے بڑھتا رہتا ہے اور مریض کے عموماً پیروں کو کاٹنا پڑتا ہے۔

شکر سے شوگر کے زخم کا علاج

ماہرین نے اپنی ایجاد کی آزمائش کے لیے ذیابیطس کے مریض چوہوں کے جسم پر 20 ملی میٹر کے زخم لگائے۔ اس کےبعد ان زخموں پر تین اقسام کی پٹیاں لگائی گئیں۔ ایک چوہے کے زخم پر صرف روایتی ایلجنیٹ پٹی باندھی گئی، دوسرے پر 5 فیصد ٹوڈی ڈی آر اور تیسرے پر 10 فیصد ٹو ڈی ڈی آر والے پھائے رکھے گئے۔

اب احتیاط سے ان زخموں کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لیا گیا اورمرہم پٹی کے پہلے، چوتھے، ساتویں، گیارہوں، چودھویں اور بیسویں روز زخم کی تصاویر لی گئیں۔ تصاویر کا جائزہ لینے کے بعد ماہرین نے ایک اہم بات دریافت کی۔

قابلِ قدرکامیابی

اپنی تحقیق کے دوران ماہرین نے درست ہوتے ہوئے زخموں کی جلد سے بافتوں (ٹشوز) کے بعض ٹکڑے لیے ان پر ایک خاص قسم کی ڈائی ڈالی اوراس کی روشنی میں دیکھا گیا تو ان پر حیرت انگیز انکشاف ہوا: وہ یہ کہ زخموں میں خون کی نئی شریانیں بنیں جس کی بدولت زخم تیزی سے مندمل ہونے لگے۔ اس طرح یہ ٹیکنالوجی ذیابیطس کے مریضوں کے زخم کو نہ صرف تیزی سے مندمل کرسکتی ہے بلکہ نئی جلد بناتی ہیں جو اس ٹیکنالوجی کی ایک اہم کامیابی بھی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح ہزاروں مریضوں کے اعضا کٹنے سے بچائے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس ٹیکنالوجی کی انسانوں پر آزمائش ضروری ہے۔

’ ہم نے درست ہوتے ہوئے زخموں کو بغور دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس میں نئی جلد پروان چڑھ رہی ہے،‘ آئی آر سی بی ایم سے وابستہ معاون پروفیسر ڈاکٹر محمد یار نے بتایا جو کامسیٹس یونیورسٹی کے لاہور کیمپس میں ٹشو انجینیئرنگ کے کلسٹر ہیڈ بھی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نئی تکینک سے تیار شدہ ڈریسنگ کمرے کے درجہ حرارت پر طویل عرصے تک کارآمد رکھی جاسکتی ہے یعنی اسے ایک مقام سے دوسری جگہ بھیجنے کے لیے خصوصی انتظامات کی ضرورت نہیں رہتی۔

اس تحقیق کے لیے آسٹریلیا کی بایوٹیک کمپنی کینینٹا نے کی ہے جس کی تفصیلات ’جرنل آف بایومٹیریلز ایپلی کیشنز‘ میں شائع ہوئی ہے۔    

’ ہم نے جلد پر کئی تجربات کئے ہیں اور ذیابیطس میں مندمل نہ ہونے والے زخموں کو تیزی سے بھرتے ہوئے، اینجیو جنیسس اور نئی جلد بننے کے عمل کا مشاہدہ کیا ہے۔ چوہوں پر تجربات میں معلوم ہوا کہ اس کے کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔‘ ڈاکٹر محمد یار نے ایکسپریس کو بتایا۔

پیٹنٹ اور انسانی آزمائش

ڈاکٹر محمد یار نے مزید بتایا کہ شکر والی ڈریسنگ کے ضمن میں پاکستان، برطانیہ اور عالمی سطح پر تین پیٹنٹ (حقِ ملکیت) کی درخواست دائر کی جاچکی ہیں اور جلد ہی انسانی آزمائش شروع کی جائے گی۔

’ امید ہے کہ اس سال کے اختتام تک انسانوں پر اسے آزمایا جائے گا اور کینینٹا کمپنی اسے پوری دنیا میں فروخت کرے گی۔ تاہم ایک اور پاکستانی کمپنی کو اس کی تیاری کا لائسینس دیا گیا ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کے لیے نسبتاً کم خرچ ڈریسنگ تیار کی جاسکیں۔‘ ڈاکٹر محمد یار نے بتایا۔

ذیابیطس کا مرض دنیا بھر میں تیزی سے پھیلتا ہوا ایک بڑا مرض ہے اور 2035 تک زمین پر 50 کروڑ 92 لاکھ افراد اس کے شکار ہوں گے۔ ان میں سے 15 فیصد مریض کے زخم مزید پیچیدہ اور گہرے ہوجاتے ہیں اور پھر ان کی ایک بڑی تعداد کے اعضا بریدگی کے عمل سے گزرتے ہیں۔

پاکستان میں ذیابیطس

پاکستان میں ذیابیطس کا مرض تیزی سے پھیل کر ہسپتالوں پر ایک بوجھ بنتا جارہا ہے لیکن اب تک مریضوں کی درست تعداد معلوم نہیں کی جاسکی ہے۔ تاہم 2017 کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ذیابیطس کا مرض خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے۔ بقائی انسٹی ٹیوٹ آف ڈائیبیٹس اینڈ اینڈوکرائنولوجی (بی آئی ڈی ای) نے وفاقی وزارت صحت کے تعاون سے ایک سروے کیا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ساڑھے تین سے تین کروڑ 80 لاکھ افراد اس مرض کے شکار ہیں۔

سال 2017 میں کئے گئے ایک بین الاقوامی سیمینار میں کہا گیا تھا کہ ہر سال پاکستان میں ڈیڑھ سے دو لاکھ مریضوں کے پیر کے نچلے حصے کاٹے جاتے ہیں کیونکہ ان کے زخم نہ ٹھیک ہونے والا ناسور بن جاتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اعضا کٹنے کے بعد بھی 70 فیصد مریض اگلے پانچ برس میں فوت ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ عضو کٹنے کے بعد جسم میں خون کی روانی اور دیگر جسمانی عوامل شدید متاثر ہوتے ہیں۔

اسی لیے اگر ذیابیطس کے زخم بروقت درست ہوجاتے ہیں تو اس سے عضو بریدگی کے آخری اور تکلیف دہ امرسے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ اب شکر پر مبنی اس ٹیکنالوجی سے نہ صرف مریضوں کے زخم درست کئے جاسکتے ہیں بلکہ پوری دنیا کے ہسپتالوں کے سرجن حضرات پر مرض کا دباؤ بھی کم کرنا ممکن ہے۔

اس اہم تحقیقی کام میں ڈاکٹر محمد یار، مریم اعظم، پروفیسر احتشام الرحمان اور ڈاکٹر عاکف انور چوہدری شامل ہیں جو کامسیٹس یونیورسٹی میں واقع آئی آر سی بی ایم سے تعلق رکھتےہیں۔ دوسری جانب برطانیہ کی شیفلڈ یونیورسٹی سے وابستہ  ڈاکٹر شیلا میک نیل، ڈاکٹر سیبینیانو رومن اور ڈاکٹر سرکان ڈکیشی بھی اس ٹیم کے فعال اراکین ہیں۔

واضح رہے کہ آئی آر سی بی ایم پاکستان میں ٹشو انجینیئرنگ اور بایومیڈیکل تحقیق سے وابستہ واحد کثیرالموضوعاتی تحقیقی ادارہ ہے جو 2008 میں قائم کیا گیا تھا۔ اپنے تحقیقی کام کی بدولت اب تک ادارے نے 400 سےزائد تحقیقی مقالے شائع کرائے ہیں ۔ اس کے علاوہ ملکی اور غیرملکی درجنوں گرانٹس اور پیٹنٹس حاصل کی ہیں۔

کامسیٹس یونیورسٹی، اسلام آباد

1998 میں کمیشن آن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ ان ساؤتھ (کامسیٹس) کے ذیلی منصوبے کے تحت کامسیٹس اسلام آباد یونیورسٹی (سی یو آئی) قائم کی گئی تھی۔ اب یہ جامعہ ملک میں تحقیق و ترقی، دریافت اور علم کے فروغ کا ایک اہم ادارہ بن چکی ہے۔ پورے ملک میں اس کے 8 کیمپس واقع ہیں جہاں 37 ہزار سےزائد طلبا و طالبات علم حاصل کررہے ہیں۔ تحقیق اور تعلیم کے ضمن میں سی یو آئی ممتاز ترین جامعات میں سے ایک ہے۔ ایشیائی جامعات ( کیو ایشین یونیورسٹیز) میں یہ 190 نمبر پر ہے۔